Maktaba Wahhabi

12 - 103
حالانکہ یہ سب باتیں درست نہیں ہیں۔خطیب ہویا مدرس یا کوئی عامی، اسے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بغیر تحقیق کے کوئی بات آگے بیان نہ کرے۔اپنی کوشش اور طاقت کے مطابق پہلے اس حدیث کی تحقیق کرے۔اگر خود نہیں کرسکتا تو کسی اہل علم سے رابطہ کرلے اور پوچھ لے کہ فلاں حدیث ضعیف ہے یا صحیح؟اس سے اسے خود بھی فائدہ اور سامعین کو بھی بہت فائدہ ہوگا اور غیر ثابت بات کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے بچ جائیں گے۔ان شاء اللہ کئی مدرسین، خطبااور عامی لوگ راقم الحروف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ جب بھی انھیں کسی چیز میں شک ہوتا ہے یا تحقیق نہیں ہوتی تو وہ راقم سے رابطہ کرتے ہیں اور راقم اس حدیث کی تحقیق کرکے اس کا حکم بتا دیتا ہے۔ میری ناقص رائے میں آج یہ کام تو ہر کوئی کر سکتا ہے۔ آج کل موبائل کی سہولت عام ہے، کال، ایس ایم ایس یا وٹس اپ کے ذریعے کسی حدیث کی تحقیق کسی اہل علم سے پوچھی جا سکتی ہے۔ جو لوگ مطالعہ کے عادی نہیں ہیں، بس سنی سنائی باتیں بیان کر دیتے ہیں، بلکہ ان کے پاس قرآن وحدیث کا بنیادی علم بھی نہیں ہوتا، ان سے اچھے اور نرم لہجے میں بات کرنی چاہئے کہ وہ مطالعہ کے عادی بنیں جس کا آسان سا طریقہ ہے کہ وہ جو حدیث بیان کریں، ان سے اس کا حوالہ پوچھا جائے۔ اگر وہ بیان کردیں تو اس کا حکم پوچھاجائے کہ صحیح ہے یا ضعیف، اس طرح شاید وہ مطالعہ اور تحقیق کا عادی بن جائے۔لیکن افسوس کہ اس طرح کا ماحول دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتا۔آج کل لوگوں کا ذہن علمی چیزیں سننے کے بجائے قصوں اور کہانیوں پر زیادہ لگا دیا گیا ہے، اس ماحول کو حکمتِ عملی سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس پرہمیں مل جل کر محنت کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ دین قرآن اور صحیح حدیث کا نام ہے اورصحیح حدیث کی چار قسمیں ہیں: ۱:صحیح لذاتہ، ۲:صحیح لغیرہ،۳:حسن لذاتہ، ۴: حسن لغیرہ۔
Flag Counter