Maktaba Wahhabi

61 - 90
ينادى مناد يوم القيامة غضوا ابصاركم حتمى تمر فاطمة بنت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم [1] ’’قیامت کے دن آواز لگانے والا آواز دے گا، فاطمہ رضی اللہ عنہا گزر رہی ہیں اپنی نگاہیں نیچی کر لو‘‘۔ ’’معراج کی شب جبرئیل نے مجھے جنت میں اس درخت کے پاس کھڑا کیا جسکے پھل اور خوشبو سے پاکیزہ تر پھل اور خوشبو میں نے نہیں دیکھی، پھر جبریلؑ نے چھلکا اتار کر وہ پھل مجھے کھلایا اور اللہ نے اس سے میرے صلب میں نطفہ پیدا کیا پھر میں نے خدیجہ سے مباشرت کی اس سے فاطمہ پیدا ہوئیں جب مجھے جنت کا اشتیاق ہوتا ہے تو میں فاطمہ کی گردن کا بوسہ لیتاہوں اس سے مجھے وہی خوشبو مل جاتی ہے۔[2] يقتل الحسين على رأس ستين سنة من مهاجري[3] ’’حسین رضی اللہ عنہ ہجرت کے ساٹھویں سال قتل کئے جائیں گے‘‘۔ انا الشجرة و فاطمة فرعها وعلى لقاحها والحسن والحسين ثمرتها وشيعنا ورقها واصلها في جنة عدن[4] ’’میں درخت ہوں، فاطمہ رضی اللہ عنہا اس کی شاخ ہیں، علی رضی اللہ عنہ اس کا شگوفہ ہیں، حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ اس کے پھل ہیں، شیعہ اس کے پتے ہیں اور اس کی جڑ جنت عدن میں ہے‘‘۔ ان آل محمد شجرة النبوة وآل الرحمة وموضوع الرسالة[5] ’’بیشک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے درخت ہیں آلِ رحمت ہیں اور موضع رسالت ہیں‘‘۔ اہلِ سنت اور وضع حدیث : اہل تشیع نے صرف اہلِ بیت اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں حدیث وضع کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خلفاء ثلاثہ خاص طور پر شیخین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کی شان میں گستاخانہ روایات وضع کیں ان کوغاصب، فاسق اور مرتد اور دشمنِ رسول جیسے خطابات دئیے اور ان کے اوپر رکیک قسم کے حملے کئے۔ ان پر یہ الزام لگایا کہ ان حضرات نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خانوادہ کے ساتھ ظلم و تعدی
Flag Counter