Maktaba Wahhabi

20 - 90
عبادت کے طریقے، معاشرتی اور سماجی تعلقات، اخلاق و کردار اور رویّے سب فعل میںداخل ہیں۔ تقریر سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی شخص نے کوئی کام کیایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع دی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کااظہار نہیںکیا بلکہ خاموش رہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی رضامندی سمجھی جائے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مقصود نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی منکر کو دیکھیں اور اس کی اصلاح نہ کریں بلکہ خاموش رہیں کیونکہ نبی کا معاملہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے وہ کسی بھی نامناسب امر پر ضرور تنبیہہ کرتا ہے۔ بعض محدثین نے حدیث کے معنی میں وسعت پیدا کی ہے اور حدیث کی تعریف اس طرح کی ہے: ما اثر عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم من قول او فعل او تقرير او صفةٍ خلقية او سرة سواء كان قبل البعثة او بعدها۔[1] ’’جوکچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو وہ حدیث ہے، خواہ قول یافعل یا تقریر ہو، یا جعلی یا اخلاقی صفات ہوں یا قبل از نبوت یا ما بعد کی سیرتِ مبارکہ ہو‘‘۔ دوسرے بعض علماء نے حدیث کے مفہوم کومزید وسیع کیا ہے اور حدیث کی تعیف اس طرح کی ہے کہ گویا وہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تاریخ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریر و کوائف بھی شامل ہیں اور اس دور کے وہ حالات بھی جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی اور دعوتی سرگرمیاں انجام پائیں[2]۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے محموعہ حدیث کانام کچھ ایسا رکھا ہے جس سے اسی وسعت کا اشارہ ملتا ہے "الجامع المسند الصحيح المختصر من امور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وسنة وايامه " [3]۔ مگر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت محض ایک زریں کی معتبرتاریخ کی نہیں ہے بلکہ
Flag Counter