Maktaba Wahhabi

80 - 90
وضع کر لی اور اب ان کا سرمایہ پندرہ روایات پر مشتمل تھا۔ کسی نے اس سے دریافت کیا کہ جناب کو گھر بیٹھے یہ روایت کہاں سے ہاتھ آگئی تو مچل کر فرمانے لگے "من رزق اللّٰه عزوجل" ’’یہ تو رزقِ خداوندی ہے‘‘[1]۔ واعظین اور قصہ گو حضرات کو بھی زیادہ تر نام و نمود ہی کا جذبہ حدیث وضع کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس علم کی اتنی فضیلت ہو اور اس کے حاملین کی اس قدر عزت افزائی ہو توسستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اہلِ ہوس کو اس سے زیادہ آسان اور کونسا راستہ دکھائی دے گا کہ وہ محدث نہ سہی تو محدث کی ہئیت ہی اختیار کر لیں۔ میسرہ بن عبدربہ اسی طرح کا ایک فتنہ گر تھا، اس کی شہرت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ مر گیا تو اہلِ بغداد نے اس کے سوگ میں بازار بند کر دئیے مگر حدیث وضع کرنے میں بیباک تھا[2]۔ عجوبہ پسندی : بعد میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے عجیب و غریب قسم کے واقعات اور حکایات بیان کرنے میں لطف آتا تھا، وہ انتہائی قسم کی چونکا دینے والی حدیثیں وضع کرتے تھے اور حدیث بنا کر لوگوں کو سناتے تھے۔ اس سے اس کا مقصد صرف لوگوں کو حیرت واستعاب میں ڈالنا، محفل کو گرم کرنا، لوگوں میں سنسنی پیدا کرنا اور ان کی نظروں میں جچ جانا تھا۔ جس طرح ہمارے زمانے میں بعض لوگ محیر العقول واقعات، پریوں کے قصے، عجیب و غریب لطیفے، ناقابلِ یقین اقعات بیان کر کے لوگوں کو حیرت میں ڈالا کرتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے زمانے میں بھی یہ حرکت ہوتی تھی اور بہت سے ناہنجار حدیث کے نام پر سب کچھ کرتے ت ھے بلکہ آج بھی کرتے ہیں۔ ایسے غرائب کو حدیث بنا کر پیش کرنے میں یہ نفسیات کام کرتی ہے کہ لوگ اسے زیادہ دلچسپی سے سنیں گے، دینی وابستگی اور والہانہ شوق کا مظاہرہ کریں گے اور راوی کی حیثیت چٹکلہ باز اور بھانڈ کی نہیں محترم حدیث کی ہو گی۔ اس قسم کے
Flag Counter