Maktaba Wahhabi

41 - 90
کرتے اور ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرا بیان کرے‘‘۔ ان اصحاب نے براہِ راست درس گاہِ نبوت کی تربیت پائی تھی اور وہ بلاواسطہ فیضان محمدی سے بہرہ ور ہوئے تھے ان سے کسی بھی حال میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات بیان کریں اور اسے نبی معصوم کی طرف منسوب کر دیں۔ جب یہ صحابہ عام انسانوں کے معاملہ میں اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہیں کر سکتے تھے تو بھلا اپنے محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کس طرح خیانت کر سکتے تھے؟ قتاد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک حدیث بیان کی تو کسی نے پوچھا کیا آپ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ کہا ہاں یا کہاکہ مجھ سے ایسے شخص نے بیان کی جوجھوٹ نہیں بولتا، نہ تو ہم جھوٹ بولتے تھے اور نہ یہ جانتے ت ھے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے۔ [1] صحابہ کرام کا یہ کمال احتیاط حدیث کی روایت ہی سے متعلق نہ تھا بلکہ حدیث قبول کرنے کے سلسلے میں بھی اسی طرح محتاط تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کمال احتیاط حدیث کی روایت ہی سے متعلق نہ تھا بلکہ حدیث قبول کرنے کے سلسلے میں بھی اسی طرح محتاط تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرنے والے سے گواہی طلب کر لیتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسم کے ذریعے موکد کراتے تھے۔ دیگر اصحاب کا بھی یہی طرزِ عمل تھا او رایسا سا بناء پر نہیں کیاجاتاتھا کہ خدانحواستہ ان کو راوی (صحابی رضی اللہ عنہم ) پر اعتماد نہ تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اسی احساسِ ذمہ داری کانتیجہ تھا کہ بہت سے اصحاب نے حدیث کی روایت چھوڑ دی اسی بناء بر ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ’’جب تم دیکھو کہ کوئی شخص کسی صحابی رضی اللہ عنہم کی اہانت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے کیونکہ ہمارے نزدیک قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں اور قرآن و سنت ہم تک صحابہ رضی اللہ عنہم ہی کے ذریعے پہنچے ہیں۔ یہ زندیق چاہتے ہیں کہ ہمارے شاہدوں کو مجروح کر دیں تاکہ قرآن و سنت کو باطل ٹھہرائیں‘‘۔ ممتاز عالمِ دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم نے عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایمان و عمل کے لحاظ سے سب لوگ یکساں نہیں تھے بلکہ اس عہد میں وہ لوگ بھی تھے نے کی نسبت قرآن میں فرمایا گیا تھا "قَالَتِ
Flag Counter