ہے ،تو ان سے کہا جائے گا :پھر تو درخت میں کلام کو پیدا کرنا بھی ناجائز ہوا کیوں کہ جس میں کلام کو پیدا کیا جائے وہ صرف زندہ ہی ہو سکتا ہے اگر یہ جائز ہے کہ کلام غیر زندہ میں پیدا کیا جائے تو یہ کیوں جائز نہیں کہ وہ کلام کرے جو زندہ نہیں ۔ان سے یہ بھی کہا جائے گا کہ تم یہ بھی کیوں نہیں کہتے کہ وہ چیز بھی کہتی ہے جو غیر زندہ ہے ۔کیوں کہ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ زمین و آسمان نے کہا :﴿ قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴾ (فصلت:۱۱)’’دونوں نے کہا :ہم فرمابرداروں کی طرح آگئے‘‘ ۲۴: ان سے کہا جائے گا :کیا اللہ نے ابلیس کو کہا نہیں :﴿وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ ﴾’’ ‘‘لازمی بات ہے جو اب میں ہاں ہی کہیں گے۔اس کے بعدان سے کہا جائے گا :جب اللہ کا کلام مخلوق ہے اور مخلوقات فنا ء ہونے والی ہیں تو لازم آیا کہ جب اللہ اشیاء کو فنا ء کردے گا تو ابلیس پر لعنت بھی فانی ہو جائے گی۔اور ا بلیس غیر ملعون ہو جائے گا ۔اور اس موقف کو اپنانے میں مسلمانوں کے دین کا ترک اور اللہ کے اس قول کا رد ہے:﴿وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ ﴾ابلیس پر لعنت جزاء کے دن تک جو کہ قیامت کا دن ہے باقی رہنے والی ہے ۔یوم الدین کا معنی ہے جزاء کا دن کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴾(الفاتحہ:۴)قیامت کے بعد ابلیس ہمیشہ جھنم میں رہے گا ۔اور لعنت اللہ کا کلام ہے ۔جیسا کہ فرمایا:( عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ)پس اس بات سے یہ واجب آتا ہے کلام اللہ کا فناء ہونا جائز نہیں اور یہ غیر مخلوق ہے کیوں کہ مخلوقات کا فناء ہونا جائز ہے ۔کلام اللہ کا فناء ہونا جب جائز نہ ہوا تو وہ غیر مخلوق ہوا۔ ۲۵: ان جھمیہ سے کہا جائے گا :جب اللہ کا غضب اور رضا ،سخط غیر مخلوق ہے تو تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ اس کا کلام بھی غیر مخلوق ہے؟ اور جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ کا غضب مخلوق ہے تو اس پر یہ لازم آیا کہ اللہ کا کفار پر غضب اور ناراضی فناء ہو جائے گی ۔انبیاء اور فرشتوں سے اس کی رضا مندی بھی فنا ء ہو جائے گی ۔نہ تو وہ اپنے اولیاء سے راضی ہو گا اور نہ اپنے دشمنوں پر ناراض اور یہ بات مسلمانوں کے دین سے خارج ہے۔ |