فصل ۶: جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ کا نہ تو علم ہے نہ قدرت ،نہ سمع اور نہ ہی بصر ۔ان لوگوں نے درحقیقت تعطیل توحیداور اسماء اللہ کی تکذیب کا قصد کیا ہے ۔لفظ تو انھوں نے باقی رکھے ہیں ان کے معانی کا اثبات نہیں کیا۔اگر یہ لوگ تلوار سے ڈرتے نہ ہوتے تو واشگاف الفاظ میں صراحت کر دیتے کہ اللہ سمیع و بصیر اور عالم نہیں ۔ لیکن تلوار کا خوف انھیں زندیقیت کے اظھار سے مانع ہے ۔ ۷: ان کے کبار شیوخ میں سے ایک شیخ کا گمان ہے کہ اللہ کا علم خود اللہ ہے۔ اور اللہ علم ہے۔ اس شخص نے وھم تو یہ دلایہ ہے کہ اس نے علم کو ثابت کیا ہے حالاں کہ علم کی نفی کی ہے۔ اس شخص کو یہ الزام دیا گیا کہ تمھارے قول کے مطابق جب اللہ ہی علم ہے اور قدرت ہے تو کہو کہ اے علم مجھے بخش دے ۔تعالیٰ اللّٰہ عن ذلک علواکبیرا۔ ابوالحسن :علی بن اسماعیل اشعری فرماتے ہیں :ہم اللہ سے ہدایت و کفایت کے سائل ہیں اسی کے ساتھ گناہ سے پھرنے اور نیکی کرنے کی قوت ہے۔ وہی مستعان ہے۔ اما بعد! ۸: جس نے ہم سے سوال کیا کہ کیا تم مانتے ہو کہ اللہ کا چہرہ ہے؟تو اس سے کہا جائے گا:مبتدعہ جو کہتے ہیں اس کے برخلاف ہم یہ کہتے ہیں ۔ یہ آیت اس پر دلیل ہے : ﴿ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ﴾ (الرحمن:۲۷)’’فقط آپ کے رب کی ذات ہی باقی رہ جائے گی جو عزت اور بزرگی والا ہے۔‘‘ ۹: اگر کوئی اللہ کے دو ہاتھوں کے متعلق پوچھے تو اس کو ہم کہیں گے ہم ہاتھوں کا اقرار کرتے ہیں اور اس پر یہ آیت دلیل ہے: ﴿ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ﴾ (الفتح:۰ا)’’ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ‘‘اور یہ آیت بھی: ﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ (ص:۷۵) ۱۰: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی کمر پر اپنا ہاتھ پھیر کر آدم |