باب :10 صفتِ ارادہ کا بیان اور معتزلہ کا رد[1] ۱: ان سے کہا جائے گا:کیا تمھارا یہ دعوی نہیں کہ اللہ ازل سے عالم ہے ؟ان کا جواب ہو گا ہاں ۔ان سے کہا جائے گا : تو تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ جو کسی بھی وقت میں ازل سے عالم ہے وہ ازل سے اس وقت میں مرید بھی ہے ؟جو ازل سے عالم ہے کہ یہ نہیں ہو گا وہ ازل ہی سے اس کا مرید ہے کہ یہ نہ ہو ۔اور ازل ہی سے جو اس نے جانا ہے وہ اس کے جاننے کے مطابق ہو۔اگر وہ کہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ ازل سے مرید ہے کیوں کہ اللہ مخلوق ارادہ کے ساتھ مرید ہے ۔تو کہا جائے گا :تم نے یہ گمان کیوں کیا اور تمھارے اور جہمیہ کے درمیان کیا فرق ہے کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ مخلوق علم کے ساتھ عالم ہے ۔اور جب یہ جائز نہیں کہ اللہ کا علم مخلوق ہو تو اس کا انکار کیوں کہ اس کا ارادہ بھی مخلوق نہ ہو ۔ اگر وہ کہیں :یہ جائز نہیں کہ اللہ کا علم محدث ہو کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ محدث علم کسی اور علم سے محدث ہو اور وہ کسی اور سے اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ہو ۔ان سے کہا جائے گا :تو پھر اس بات کا انکار کیوں کہ اللہ کا ارادہ و مخلوق محدث نہ ہو کیو کہ اس سے بھی یہ لازم آتاہے کہ یہ ارادہ کسی اور محدث ارادہ سے ہو ۔وہ کسی اور سے اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ہو ۔اگروہ کہیں یہ جائز نہیں کہ اللہ کا علم محدث ہو کیوں کہ جو عالم نہ ہو بعد میں عالم ہو اس سے نقصان کا الحاق ہوتا ہے ۔ تو ان سے کہا جائے گا:تو پھر یہ کیوں جائز نہیں کہ اللہ کا ارادہ محدث و مخلوق ہو کیونکہ جو مرید نہ ہو نے کے بعد مرید ہو ا س سے نقصان کا الحاق ہوتا ہے۔اور جس طرح یہ جائز نہیں کہ اس کا ارادہ محدث و مخلوق ہو اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ اس کا کلام محدث و مخلوق ہو ۔ |