Maktaba Wahhabi

132 - 184
ان لوگوں سے کہا جائے گا :تمھارا یہ گمان ہے کہ اللہ کی سلطنت میں کفر و عصیان ہے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا۔اس نے مخلوق کے ایمان کا ارادہ کیا مگر وہ نہ لائے۔تمھارے ا س گمان سے یہ واجب ٹھہرتا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے اس میں سے اکثر وقوع نہیں ہوتا اور جس کے متعلق اللہ چاہتا ہے کہ وہ ہو اس میں سے اکثر نہیں ہوتا ۔کیوں کہ وہ کفر جو موجود ہے اور تمھارے نزدیک وہ اللہ کی مشیئت سے نہیں اس موجود ایمان سے کم ہے جس کو وہ چاہتا ہے ۔اس قول میں اس کا انکار ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوتا۔ دوسری دلیل :ان لوگوں سے کہا جائے گا:تمھارے (بالا)قول سے مستفاد ہوتا ہے کہ ابلیس جو چاہتا ہے اس میں سے اکثر ہو جاتا ہے ۔کیوں کہ کفر ایمان سے زیادہ ہے اور اکثر جو ہوتا ہے وہ اس کو چاہتا ہے ۔ پس تم نے ابلیس کی مشیئت کو رب العالمین کی مشیئت سے زیادہ فائدہ ہونے والی مشیئت بنا دی ہے ۔جل ثناؤ ہ و تقدست اسماء ہ۔کیوں جو اس نے چاہا ہے وہ اکثر ہو گیا۔اور جو ہوا اس میں سے اکثر شیطان کی مشیئت تھی۔اور اس میں اس کا ایجاب ہے کہ تم نے ابلیس کے لیے مشیئت کے ایک ایسے مرتبے کا اثبات کیا ہے جو رب العالمین کے لیے بھی نہیں کیا۔تعالیٰ اللّٰہ عزوجل عن قول الظالمین علوا کبیرا۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا :صفت اقتدار کا لائق زیادہ کون ہے؟ (الف)کیا وہ ذات کہ جب وہ کسی کے وقوع کا ارادہ کرے تو ہو کر رہے اور جب ارادہ نہ کرے تو نہ ہو؟ (ب)یا وہ ذات جو ایسی چیز کے وقوع کا ارادہ کرتی ہے جو نہ ہوا ور وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا وہ ارادہ بھی نہیں کرتا ۔ اگر وہ کہیں :(الف)وہ ذات جس کے ارادہ میں سے اکثر نہیں ہوتا وہ زیادہ حقدار ہے تو یہ مکابرہ ہے ان سے (اس صورت)میں کہا جائے گا:اگر یہ جائز ہے تو پھر یہ بھی کہنے
Flag Counter