پس تمہیں یہ لازم آتا جو کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذراع سے سنا وہ اللہ کا کلام تھا ۔اگر یہ محال ہے کہ اللہ نے اس مخلوق کلام سے کلام کیا ہو تو اس پر انکار کیوں کرتے ہو کہ یہ بھی محال ہو کہ اللہ نے اپنا کلام درخت میں پیدا کیا ہو۔کیوں کہ مخلوق کا کلام اللہ کا کلام نہیں ہوتا۔اگر اللہ کا کلام جس سے اس نے کلام کیا تمھارے نزدیک مخلوق ہے تو اس سے تمھیں یہ لازم آتا ہے کہ اللہ اس کلام کا بھی مکلم ہو جو اس نے ذراع میں پیدا کیا ۔اگر جھمیہ اس الزام کو مان لیں تو ان سے کہا جائے گا :تمھارے قول کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ اللہ ہی نے کہا :لاتاکلنی فانی مسموعۃ۔[1]اللہ تمھارے اس افتراء سے بہت بلند وبرتر ہے۔اگر وہ کہیں کہ یہ جائز نہیں کہ اللہ کا کلام ذراع میں مخلوق ہو تو ان سے کہا جائے گا :اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ اللہ کا کلام درخت میں مخلوق ہو۔ ۲۲: مسئلہ ۔ان جھمیہ سے اس کلام کے متعلق سوال کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے بھیڑیے سے کہلوایا[2] جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خبر دی۔ ان سے کہا جائے گا :جب اللہ تعالیٰ ایسے کلام کے توسط سے کلام کرتا ہے جو اپنے غیر میں پیدا کرتا ہے تو اس بات کا تم انکار کیوں کروگے کہ وہ کلام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑیے سے سنا وہ اللہ کاکلام ہو ۔اور یہ معجزواقعہ اس بات پر دال ہو کہ بھیڑیے کا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام تھا۔اس بات کے مطابق جھمیہ پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ کلام بھیڑیے کا نہیں ،اللہ کا تھا ،کیوں کہ بھیڑیے سے کلام کا صدور معجزہ ہے جیسا کہ درخت سے کلام کا صدور معجزہ ہے۔پس اگر بھیڑ یا اس مخلوق کلام کا متکلم تھا تو اس کا انکار کیوں ؟کہ درخت بھی مخلوق کلام کا متکلم ہو اور مخلوق ہی نے کہا ہو :﴿يَامُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ ﴾ (القصص:۳۰)اللہ تعالیٰ اس سے بلند وبرتر ہے ۔ ۲۳: ان سے کہا جائے گا :تمھارے نزدیک جب اللہ کا کلام اس کے غیر میں مخلوق ہوتا ہے تو تمھیں یہ بے خوفی کیسے ہو گی؟ کہ جو کلام اللہ غیر میں پیدا کیا گیا پس وہ درحقیقت اللہ ہی کا کلام ہوا۔اگر وہ کہیں کہ درخت متکلم نہیں ہو سکتا کیوں کہ متکلم صرف زندہ ہی ہو سکتا |