Maktaba Wahhabi

92 - 184
﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ﴾ (الشوری:۵۱) ’’کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے مگر وحی یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجتا ہے ۔وہ اللہ کے حکم سے جو چاہتا ہے وحی کرتا ہے۔‘‘ اگر اللہ کا کلام صرف مخلوق میں پیدا کیے جانے کی صورت میں ہی ہو سکتا ہو تو ان وجوہ کی شرط لگانے کا کوئی معنی نہیں ۔کیوں کہ جھمیہ کے گمان کے مطابق اس کا کلام جو غیر اللہ میں پیدا کیا گیا ہے وہ تمام مخلوق نے سن لیا ہے۔ ان کی یہ بات انبیاء کے مرتبہ کے ساقط ہونے کو واجب کرتی ہے۔ ۲۰: جھمیہ کے گمان کے مطابق کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام درخت میں پیدا کرکے کیا ،یہ لازم آتا ہے کہ جس نے اللہ کا کلام اس فرشتے یا نبی سے سنا اور موسیٰ علیہ السلام سے کلام لیا ہے موسیٰ علیہ السلام سے افضل ہے ۔کیوں کہ اس شخص نے کلام نبی سے سنا اور موسیٰ علیہ السلام نے نہ نبی سے سنا بلکہ درخت سے سنا۔ان کے گمان کے مطابق یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ یہودی جس نے اللہ کا کلام نبی سے سنا وہ اس اعتبار سے موسیٰ علیہ السلام بن عمران سے افضل ہوا۔کیوں کہ یہودی نے اللہ کے انبیاء میں سے ایک نبی سے سنا اور موسیٰ علیہ السلام نے درخت میں پیدا کیا گیا سنا۔اور اگر کلام درخت میں پیدا کیا گیا تھا تو اللہ موسی علیہ السلام سے پس حجاب کلام کرنے والا نہ ہو۔کیوں کہ درخت کے پاس جو بھی جن وانس تھے انھوں نے بھی اس جگہ سے کلام کو سنا ۔اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے غیر اس میں برابر ہوئے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کا کلام پس حجاب سے نہ تھا۔ ۲۱: ان کو ایک اور جواب بھی دیا جائے گا کہ تم نے گمان کیا ہے کہ ’’کلم اللّٰہ موسیٰ ‘‘کا معنی ہے کہ اللہ نے کلام کو پیدا کرکے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی ۔تو یہ بھی تمھارے ہاں ہونا چاہیے کہ اللہ نے ذراع میں کلام پیدا کیا ۔کیوں کہ ذراع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:لاتاکلنی فانی مسمومۃ۔[1]
Flag Counter