یہ بات لازم ہے کہ اس نے یہ گواہی دی اور خود سے سنی ،کیوں کہ اگر مخلوق سے سنی تو پھر تو یہ اس کی اپنی گواہی نہ ہوئی ،پس جب یہ اس کی گواہی ہے اور اس نے یہ گواہی دی بھی ہے تو یہ بات اس سے خالی نہیں کہ اس نے یہ گواہی یا تو مخلوقات سے پہلے دی یا مخلوقات کے بعد ،اگر یہ گواہی اس نے مخلوقات کے بعد دی تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے مخلوق سے قبل اپنے نفس کے لیے الوھیت کی گواہی نہیں دی ،اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس سے تو یہ واجب آتا ہے کہ مخلوق سے قبل کسی نے بھی توحید کی گواہی نہیں دی۔اور جب مخلوق کے وجود سے قبل وحدانیت کی گواہی ناممکن ہوئی تو تو حید کا اثبات بھی محال ہوا ۔اور یہ بھی محال ہوا کہ وہ مخلوق سے قبل واحد ہو ۔کیوں کہ جس کی گواہی دینا محال ہے وہ خود بھی محال ہے۔اور اگر اس نے توحید کی گواہی مخلوق سے قبل دی ہے تو یہ باطل ہوئی کہ اس کا کلام مخلوق ہے ،کیوں کہ اللہ کا کلام اس کی گواہی ہے۔ ۱۸: جھمیہ کے فرقوں کی بات کے رد پر ایک یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ کے نام قرآن میں سے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا : ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (1) الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى ﴾(الاعلی:۱۔۲) ’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کیجیے جو اعلی ہے جس نے پید ا کیا پھر اسے درست کیا‘‘ یہ ممکن نہیں کہ تیرے بلند رب کا نام،جس نے پیدا کیا پھر برابر کیا،مخلوق ہو۔جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہمارے رب کی بزرگی مخلوق ہو۔اللہ تعالیٰ نے سورہ جن میں فرمایا ہے : ﴿وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا﴾(الجن:۳) ’’اورہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے ‘‘اور جس طرح یہ جائز نہیں کہ اس کی عظمت مخلوق ہو۔اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ اس کا کلام مخلوق ہو۔ ۱۹: اور دلیل ان کے رد میں یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا: |