تَكْلِيمًا ﴾(النساء:۱۶۴)’’اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بول کر کلام کیا‘‘تکلم بالمشافھہ کلام کو کہتے ہیں اور یہ جائز نہیں کہ متکلم کا کلام اس کے غیرمیں حائل ہو اس کے سوا میں پیدا کیا گیا ہو جیسا کہ صفت علم کے متعلق یہ جائز نہیں ۔ ۱۵: ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ () اللَّهُ الصَّمَدُ () لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ () وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴾ ’’آپ کہدیجیے کہ اللہ ایک ہے ،اللہ بے نیاز ہے،نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اسکا ہمسر کوئی نہیں ‘‘ پس قرآن کیسے مخلوق ہو سکتا ہے جب کہ قرآن میں اللہ کا نام ہے۔قرآن کے مخلوق ہونے سے تو یہ واجب آتا ہے کہ اللہ کے اسماء مخلوق ہوں ۔اور اگر اس کے اسماء مخلوق ہیں تو اس کی وحدانیت بھی مخلوق ہوئی۔اسی طرح علم وقدرت بھی مخلوق ہوئیں اور اللہ تعالیٰ اس سے بلند وبرتر ہے۔ ۱۶: ایک اور دلیل ملاحظہ فرمائیں :اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ﴾(الرحمن :۷۸)’’بابرکت ہے تیرے رب کا نام‘‘مخلوق کو تبارک نہیں کہا جاتا ۔اس سے یہ دلیل ملتی کہ اللہ کے اسماء غیر مخلوق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ﴾ (الرحمن:۲۷) ’’فقط آپ کے رب کی ذات باقی رہ جائے گی‘‘جس طرح یہ جائز نہیں کہ ہمارے رب کا چہرہ مخلوق ہو اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے اسماء مخلوق ہوں ۔ ۱۷: ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ﴾ (آل عمران:۱۸) ’’اللہ نے شھادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں فرشتوں اور علم والوں نے بھی شھادت دی ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے‘‘ |