Maktaba Wahhabi

89 - 184
نے ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ذکر کیا ہے: ﴿ قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَاإِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ ﴾(الانبیاء:۶۲۔۶۳) ’’ابرہیم ھمارے معبودوں سے یہ (سلوک)تم نے کیا ہے ؟ابراھیم نے جواب دیا نہیں بلکہ ان کے بڑے (بت) نے کیا ہو گا لہذا اس سے پوچھ لو اگر بولتے ہوں۔‘‘ ابراھیم علیہ السلام نے ان کے خلاف یہ دلیل دی کہ بت جب بولتے اور کلام نہیں کرتے تو الہ نہیں ہوسکتے اور اللہ عزوجل ایسا نہیں کہ نہ کلام کرنے والا ہو اور نہ بولنے والا۔وہ بت جن کے متعلق یہ نا ممکن نہیں کہ اللہ ان کو زندہ کردے اور بولنے والا بنا دے،الہ نہیں ہو سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ الہ ہو جس پر ازل ہی سے کلام کرنا مستحیل ہو۔اللہ تعالیٰ اس سے بلند وبرتر ہے۔ جب یہ جائز نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ازل سے ان بتوں سے کم تر ہو جو بولتے نہیں تو یہ واجب ٹھہرا کہ اللہ عزوجل ازل سے متکلم ہے ۔ ۱۳: ایک اور دلیل ملاحظہ کریں :اللہ عزوجل نے بتلایا ہے کہ وہ کہے گا :﴿ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ﴾(غافر:۱۶)’’آج حکومت کس کی ہے‘‘اور روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ یہ کہے گا تو کوئی جواب نہ دے گا ۔پھر وہ خود ہی کہے گا:﴿ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾(غافر:۱۶)’’اللہ اکیلے کی جو سب پر غالب ہے‘‘ [1] اللہ عزوجل اشیاء کے فناء ہونے کے باجود یہ کہے گا جب نہ تو کوئی انسان ،نہ بادشاہ،نہ زندہ،نہ جن،نہ پتھر،نہ درخت اور نہ ہی کوئی بستی ہو گی تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل کا کلام مخلوق سے خارج ہے کیوں کہ کلام ہو گا اور مخلوقات میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہوگی۔ ۱۴: ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى
Flag Counter