﴿ وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾(السجدہ:۱۳) ’’لیکن میری بات پوری ہو کر رہی کہ میں جھنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا‘‘ پس اللہ کا کلام اللہ عزوجل ہی سے ہے ۔یہ جائز نہیں کہ اس کا کلام مخلوق درخت میں پیدا کیا گیا ہو ۔جیسا کہ یہ جائز نہیں کہ اس کا علم اس کے غیرمیں پیدا کیا گیا ہو ۔اللہ عزوجل اس سے بہت بلندوبرتر ہے۔ ۱۰: ایک جواب یہ بھی ہے کہ ان سے کہاجائے :جیسے یہ جائز نہیں کہ اللہ اپنا ارادہ کسی مخلوق میں پیدا کرے اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنا کلام کسی مخلوق میں پیدا کرے۔اگر اللہ کا ارادہ کسی مخلوق میں پیدا کیا گیا ہوتا تو وہ مخلوق جس میں وہ پیدا کیا گیا وہ اس ارادہ کی مرید ہوتی،اور یہ ناممکن ہے۔اسی طرح یہ بھی نا ممکن ہے کہ اللہ اپنا کلام کسی مخلوق میں پیدا کرے ،کیوں کہ اس سے یہ واجب آتا ہے کہ وہ مخلوق جس میں کلام پیدا کیا گیا وہ اس کلام کی متکلم ہے۔اور یہ نا ممکن ہے کہ اللہ کا کلام مخلوق کا کلام ہو۔ ۱۱: ایک اور دلیل جو ان کے موقف کا رد کرتی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے مکاتب کیا ہے کہ انھوں نے کہا :﴿ إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴾ (المدثر:۲۵)’’نہیں ہے یہ مگر بشرکا قول‘‘یعنی قرآن ۔پس جس نے گمان کیا کہ قرآن مخلوق ہے تو اس نے قرآن کو بشر کا قول بنا چھوڑا ۔اور اسی کا اللہ نے مشرکین پر انکار فرمایا ہے یوں بھی اگر اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد متکلم ہوا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اشیاء اس کے امر اور قول کے بغیر ہی وجود میں آگئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ’’کن‘‘نہ کہا۔اس سے قرآن کی تردید ہوتی ہے اور یہ ایسا قول ہے جو تمام اھل اسلام کے قول سے ہٹ کر ہے۔ ۱۲: آپ لوگ جان لیں کہ جھمیہ کا کہنا کہ کلام اللہ مخلوق ہے اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ان بتوں کی طرح تھا جو نہ بولتے ہیں ،نہ کلام کرتے ہیں ۔ اللہ عزوجل |