اور میرے رب کے کلمات کو فناء نہ آتی۔جیسا کہ اللہ کے علم کو فناء نہیں ،اور جس کا کلام فناء ہو جائے اس کو آفات آلیتی ہیں اور اس پر سکوت جاری ہوجاتا ہے پس جب ہمارے رب پر جائز نہ ہوا تو یہ درست ثابت ہوا کہ وہ ہمیشہ سے متکلم ہے کیو نکہ اگر وہ متکلم نہ ہوتا تو واجب تھا کہ اس پر سکوت اور آفات ہوتیں ۔ہمارا رب جھمیہ کے قول سے بہت بزرگ وبرتر ہے۔
۹: جھمیہ کا گمان بھی اسی طرح ہے جیسا کہ نصاری کا گمان ہے کیوں کہ نصاری کا گمان ہے کہ اللہ کا کلمہ مریم علیہ السلام کے پیٹ میں سما گیا،جھمیہ نے اس پر اضافہ کیا اور گمان کیا کہ اللہ کا کلام ایک درخت میں اتر آیا،اور درخت نے اس کو اپنے اندر سمولیا اس سے ان کو یہ لازم آتا ہے کہ درخت نے وہ کلام کیا اور مخلوقات میں سے ایک مخلوق نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی اور درخت نے کہا:﴿ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي ﴾(طہ:۱۱۴)اگر درخت میں اللہ کا کلام پیدا کیا گیا تو مخلوق نے یہ کہا:اے موسیٰ﴿إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي ﴾ (طہ:۱۱۴)’’بلاشبہ میں ہی الہ ہوں میرے سوا کوئی الہ نہیں لہذا میری ہی عبادت کرو‘‘
اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
[1]
|