زیادہ اس کے راوی ہیں ۔(( لا وصیۃ لوارث [1]،مسح علی الخفین اور لا تنکح المرأۃ علی عمتھا ولا علی خا لتھا)) [2] احا دیث سے بڑ ھ کر اس حدیث کے رواۃ ہیں ۔ جب رجم اور مذ کور ہ احادیث معتزلہ کے ہا ں سنت ہیں تو دیدا ر تو زیا دہ اولی ہے کہ سنت ہو ، کیو ں کہ اس کے رواۃ اور نا قلین کی کثرت ہے ۔ خلف اس کو سلف سے نقل کرتے آئے ہیں ۔اور (ا نی اراہ ) [3]()صحیح مسلم:۷۸ حدیث میں نفی رؤ یت کی دلیل نہیں ۔ کیو ں کہ (ابوذر رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا میں اللہ کی رؤیت کے متعلق سوال کیا تھا اور کہا تھا : ـ کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟‘‘ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرما یا تھا : (نور انی اراہ) کیو ں کہ آنکھیں دنیا میں مخلو ق روشنیو ں کا ادراک نہیں کر سکتی اگر انسا ن سورج کی ٹکی کو نظر جما کر مسلسل دیکھے تو اس کی آنکھ کی کا فی سا ری بصا رت ختم ہو جا ئے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جب یہ فیصلہ کردیا ہے کہ آنکھ سورج کی ٹکی کو نہیں دیکھ سکتا تو یہ زیا دہ لائق ہے کہ دنیا میں آنکھ اللہ کی طرف نہ دیکھ سکے الا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کو قوت دے دے ۔ دنیا میں اللہ سبحا نہ کی رؤ یت مختلف فیھا مسئلہ ہے جب کہ صحا بہ میں کسی سے یہ مروی نہیں کہ آخرت میں آنکھیں اللہ کا دیدار نہیں کریں گی بلکہ ان سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں آنکھیں دیکھیں گی۔ ۱۵۔.... دنیا میں رؤ یت کے متعلق اگر چہ ان کا اختلا ف ہے مگر آخرت میں دیدار کے وہ سب قا ئل تھے ۔[4] اس لیے آ خرت میں دیدار با لا جما ع ثا بت ہے ۔ بہر حا ل ہما را مقصو د تو آخرت میں دیدار کا اثبا ت تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ( انی اراہ) والی رؤیت معتزلہ کے حق میں نہیں ، ان کے خلا ف ہے کیو ں کہ وہ اس بات کا انکا ر کرتے ہیں کہ اللہ درحقیقت نو ر ہے ۔ جب وہ کسی ایسی حدیث سے دلیل پکڑیں گے جس سے خو د منحرف ہو ں |