Maktaba Wahhabi

76 - 184
﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ﴾(یونس:۲۶) ’’جن لوگوں نے اچھے کام کیے ویسا ہی اچھا بدلہ ہو گا اور اس سے زیادہ بھی،، اصحا ب تفسیر کہتے ہیں :(اس زیادہ) سے مراد اللہ کو دیکھنا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب جنت پر اپنے دیدار سے بڑھ کر انعام کوئی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ﴾ (ق:۳۵) ’’اور ہمارے ہاں اس سے زیادہ بھی ہے،، کہا گیا ہے کہ (یہ مزید بھی) اللہ عزوجل کی طرف دیکھنا ہے ۔ ارشاد ہے: ﴿تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ﴾(الاحزاب:۴۴) ’’ جس دن وہ اللہ سے ملیں گے ان کا استقبال سلام سے ہو گا۔‘‘ اور جب مومن اس سے ملاقات کریں گے تو دیکھیں گے بھی۔اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ﴾ (المطففین:۱۵) ’’یقیناً ایسے لوگ اس دن اپنے رب کے( دیدار ) سے محروم رکھے جائیں گے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے کفار کو اپنے دیدار سے محجوب کیا ہے نہ کہ مومنوں کو۔ ۱۱۔اگر کوئی سوال اٹھائے کہ: ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾ (الانعام:۱۰۳)’’نظریں اسے پا نہیں سکتیں ۔‘‘ کا کیا معنیٰ ہے ؟ تو اس کو جواب دیا جائے گا کہ ممکن ہے اس کا معنیٰ ہو دنیا میں آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں ۔آ خرت میں کر پائیں گی، کیوں کہ رؤیت الٰہی سب سے افضل لذت ہے اور افضل ا للذات افضل الدارین میں ہی ہوتی ہے۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اللہ نے ابصا ر سے جھٹلانے والے کفار کی آنکھیں مراد لی ہوں ۔اس بات کا امکان اس لیے ہے کہ قرآن کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے۔ جب ایک آیت میں اس نے فرمایا ہے کہ روز قیامت چہرے اس کو دیکھیں گے ۔ اور دوسری جگہ ابصار کے ادراک کی نفی کی ہے تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس نے ابصار سے مراد کفار کی آنکھیں لی
Flag Counter