﴿فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي﴾ (الاعراف :۱۴۳)اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تو، تو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کے استقرار پر قادر تھا تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ اس امر پر قادر تھاجس کو اللہ تعالیٰ اگر کرتا تو موسیٰ علیہ السلام اس کو دیکھ لیتے۔ پس اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنا دیدار اپنے بندوں کو کرائے اور اس کی رؤیت جائز ہے۔ ۹۔اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ فرمان الٰہی ﴿فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي﴾ اس کے دیدار کے دو راز کار ہونے کو واضح کرتی ہے؟ تو اس سے کہا جائے: اگر اللہ تعالیٰ نے رویت کا دوراز کار ہونا بتلانے کا ارادہ کیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنی بات کو اس سے ملا کر ذکر کرتے جس کا وقوع مستحیل ہوتا نہ کہ جائز ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے استقرار جبل سے رویت کو مشروط کیا اور یہ اللہ کی قدرت میں ہے سو اس نے اللہ کے دیدار کے جواز پر دلالت کی۔ دیکھتے نہیں کہ خنساء نے جب یہ بتانا چاہا کہ اس شخص سے صلح دوراز کار ہے جو اس کے بھائی کا دشمن ہے تو اس نے بات کو محال سے مشروط کیا۔ کہتی ہیں : ولااصالح قوما کنت حربھم حتی یعودبیاضا حلکۃابقار ’’اورمیں اس قوم سے جس کاتو دشمن تھا تب تک صلح نہ کروں گی جب تک تارکول کی سیاہی سفید نہ ہو جائے۔‘‘[1] اللہ عزوجل نے عرب سے ان کی زبان میں ،ان کے کلام کے مفہوم اور ان کے خطاب میں معقول کلام سے خطاب کیا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے رؤ یت کو جب مقدور اور جائز سے مشروط کیا تو ہم نے جان لیا کہ آنکھوں سے دیدار الٰہی جائز ہے ناممکن نہیں ۔ ۱۰۔اس مسئلہ سے متعلق ایک یہ آیت بھی دلیل ہے۔ |