’’ہمارے رب ہم پرہماری بدبختی غالب آگئی اب ہم گمراہ قوم تھے ‘‘
اور یہ سب اس امر کے مظابق ہے جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہے ۔اور اس میں اس کا ارادہ نافذ اور مشیئت گزرچکی ہے ۔
۱۰۔معاویہ بن عمرواززائدہ علمہ بن یحیٰ قرشی از عائشہ بنت طلحہ از عائشہ ام المؤمنین بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انصار میں سے کسی بچے کی نمازجنازہ پڑھانے کے لیے بلائے گئے ۔عائزہ فرمانے لگیں :اس کے لیے طوبی ہے اے اللہ کے رسول :یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے اس نے نہ تو گناہ کیا نہ گناہ کی عمر کو پہنچا۔آپ نے فرمایا:
((أوغیرذلک یا عائشہ !ان اللّٰہ عزوجل قد ھل للجنۃ اھلاوھم واصلاب آبائھم وللذراھلاجعلھم لھاوھم فی اصلاب آبائھم) ) [1]
’’اے عائشہ یا اس کے علاوہ کچھ ہے ! اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگ بنائے ہیں جب کہ وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے اور جہنم کے لیے بھی کچھ اہل بنائے ہیں جو کہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے‘‘
یہ حدیث واضح کرتی ہے سعادت اہل سعادت کے لیے پہلے سے متعین ہو چکی اور بد بختی اہل شقاء کے لیے پہلے متعین ہو چکی ۔
۱۱۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اعملوا فکل میسر فکل میسر لما خلق لہ ))(سبق تخریجہ)
’’عمل کرو ،ہر شخص کو اس کام کی تسعیر کی گئی ہے جس کے لیے وہ پیداکیا گیاہے ‘‘
۱۲۔ایک اور دلیل ۔اللہ نے فرمایا:
|