اور ان کے غیر کے لیے بھی ہدایت ہے ؟ان سے کہا جائے گا: ﴿ إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ ﴾ کا معنی یہ ہے کہ تمھارے انذار سے فائدہ وہ اٹھاتا ہے جو ذکر کی پیروی کرے اور ﴿ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا ﴾ کا معنی یہ ہے کہ انذار سے فائدہ وہ اٹھاتا ہے جو قیامت اور قیامت کی سزا سے ڈرتااہے کیوں کہ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ اس نے کفار کو بھی ڈرایا ہے فرمایا: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴾ (البقرہ :۶) آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ان کے لیے ایک ہی بات ہے وہ ایمان نہیں لائے گے‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ (الشعراء :۲۱۴) ’’اوراپنے کنبہ کے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘‘ اور فرمایا: ﴿ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴾ (فصلت:۱۳) ’’میں تمھیں ایسی کڑک سے ڈراتاہوں جیسی قوم عاداور ثمود پر گری تھی‘‘ یہ کفار کو خطاب ہے ۔جب اللہ نے قرآن میں خبردی ہے کہ اس نے کفار کو بھی ڈرایاہے جیسا کہ خبردی ہے کہ اس نے ذکر کے پیرواور قیامت سے ڈرنے والوں کو ڈرایا ہے تویہ واجب ٹھہراکہ اللہ نے مؤمنین اور کفار دونوں کو ڈرایاہے ۔اور جب ہمیں یہ بتایاکہ یہ متقین کے لیے ہدایت اور کفار پر عمی ہے اور اللہ کفار کو ہدایت نہیں دیتاتو یہ واجب ہوا کہ قرآن کفار کی بجائے صرف مؤمنین کے لیے ہدایت ہے ۔ ۴۶۔اگر کوئی ﴿ وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى ﴾ کے متعلق سوال کرے تو کہا ثمود کفار نہ تھے اور اللہ نے بتایا ہے کہ اس نے ان کو |