انھیں کہاجائے گا:کیا یہ جائزہے کہ جس کے متعلق اللہ خبر دے کہ قرآن اس کے لیے ہدایت ہے اسی پر قرآن عمی بھی ہوں ۔اب نہیں لیے بغیرکوئی چارہ نہ ہوگااس پر انھیں کہاجائے گا کہ جس پر یہ جائز نہیں اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ قرآن اس کے لیے ہدایت ہے۔ ہوجس کے متعلق اللہ نے خبردی ہے کہ قرآن اس پر عمی ہے ۔ ۳۵۔مسئلہ اخری :پھر ان سے کہا جائے گا جب یہ جائز ہے کہ ایمان کی طرف جاناہی ہدایت ہے (یعنی اس کو ہدایت کہتے ہیں )کوئی قبول کرے یا نہ کرے تو اس کا اناپھرکیوں ابلیس کا کفر اور ضلال کی طرف بلاتا ہی اضلال ہے ۔ خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے ؟اگر ابلیس کا کفر کی طرف بلانا صرف ان کاکفارکے لئے اضلال ے جنہوں نے اس کو قبول نہیں کے لیے جنھوں نے قبول نہیں کیا تو پھر اس کا انکار کیاں کہ اللہ کا ایمان کی طرف بلاناصرف ان مؤمنین کے لیے ہدایت ہوجنہوں نے قبول کیا نہ کہ ان کفار کے لیے جنھوں نے قبول نہ کیا ۔ وگرنہ اس میں اور اس میں فرق کیا ہے ؟! ۳۶۔ان سے کہاجائے گا :کیا اللہ نے فرمایانہیں : ﴿ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا﴾ (البقرہ :۲۶) ’’اس طرح اللہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتے ہے اور بہت لوگوں کوہدایت دیتاہے ‘‘ اور کہاگیاہے کہ یہ قول دلالت کرتاہے کہ اللہ نے سب کو گمراہ نہیں کیا کیوں کہ یضل بہ کثیراکہاہے ۔اگر کل مراد ہوتے تو یضل بہ الکل کہتا۔جب کثیرابولاتوہمیں ہواکہ اللہ نے سب کو گمراہ نہیں کیا۔ اس بات پر ہاں کہیں بغیرچارہ کار نہ ہوگا۔اس پر انھیں کہاجائے گا:پھراس کاانکار کیوں کہ ویھدی بہ کثیرااس بات کی دلیل ہے کہ اس سے اس نے کل مراد نہیں لیے کل مراد ہوتے تووہ یھدی بہ الکل ہوتا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا میں تمھارے قول کا ابطال ہے کہ اللہ |