’’اور اللہ کسی کو ہرگزمہلت نہیں دیتاجب اسکی موت آجائے ‘‘ ہاں کے بغیرچارہ نہ ہوگااس پر انھیں کہاجائے گا:ہمیں اس کے متعلق بتاؤ جس کو ظلماکسی نے قتل کردیاکیا تمہارے لگان کے مطابق وہ اپنی اجل ہی میں فوت ہوایاخیراجل میں ۔اگر کہیں ہاں (یعنی اپنی اجل کے مطابق ہی )تو وہ موافق ہوگے اور حق کے قائل ہوگے اور قدرکی بدعت چھوڑدی اور اگر کہیں نہیں توکہاجائے گا:اس مقتدل کی اجل کب تھی ؟ ۲۸۔مسئلہ اخری ۔ان سے کہاجائے گا :تمھارے ہاں قاتل اس پر قادر تھاکہ وہ اس مقتول کوقتل نہ کرتے اور وہ زندہ کردیتا۔تو وہ قاتل اس کی اجل کو مقدم کرنے اور اجل کو کا ئنے ہر قادر رہے اور اس کی اجل کو مؤخر کرنے پرابھی قادر ہے ۔پس تمہارے اس قول کے مطابق انسان لوگوں کی آجال مقدم ومؤخر کرنے پر قادر ہے بعدبندوں کے باقی رکھتے تلف کرنے اور ان کی روح نکالنے پر بھی قادر ہے ۔حالاں کہ یہ دین بھی الی دہے ۔ ۲۹۔رزق سے متعلق مسئلہ : [1] ان سے کہاجائے گا:ہمیں بتاؤ جس نے کھانا عضب کیا تو اس کا کھانا حرام ہے ۔تو کیا یہ حرام اس کو اللہ نے رزق دیاہے ؟اگر کہیں ہاں تو انھو ں نے قدرکو چھوڑدیا ۔اور اگر کہیں نہیں تو کہا جائے گا:جس نے ساری عمر حرام کھایااس کو اللہ نے کوئی چیز زرق نہیں دی جس کو اس کے جسم نے سطور غذااستعمال کیا ہو!! ان سے یہ بھی کہا جائے گا: جب اس کا میرابی کے لیے کھانا غصب کرے اور موت تک اس کو کھائے تو کیا تمھارے نزدیک اس کا اجر غیر اللہ نے جاری کیا ہے ؟جب کہ اس میں اس کا اقرار ہے کہ مخلوق کے دو مخلوق ہیں ؟(ا)ایک حلال رزق دیتاہے (ب)دوسراحرام اورلوھوں کے گوشہ اور بدئیاں اس کے باوجود نمویا کئی کہ اللہ ن ے ان کو رزق دیا ہو جو ان کی غذا بنے ۔اور جب تم نے یہ کیا کہ تمہارا امیررزق حرام دیتا اللہ نہیں تو اس سے یہ لازم آیاکہ اللہ نے نہ تو اس کو غذادی ہے اور نہ ہی اس کو اس کے جسم کا قوام بنایا ہے بلکہ اس |