اضاحت ہوتی ہے کہ ((ان القدریہ مجوس ہذہ الامۃ ))(قدم تخریجہ) ’’قدریہ اس امت کے مجوس ہیں ‘‘ یہ اس امت کے مجوس اسی لیے ہیں کہ انھو ں نے مجوس کی بات ہی کی ہے ۔ ۲۱۔مسیلہ : قدریہ کا گمان ہے کہ لفظ قدرکے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ [1] کیوں کہ ہم کیلے ہیں کہ اللہ نے شروکفر کو مقدر کیا ۔تو جو قدرکو ثابت کرتا ہے وہ قدری ہوانہ کہوہ جو ثابت نہیں کرتا۔ اس پر ان سے کہا جائے گا: قدری وہ ہے جو اللہ کی بجا ئے اپنے لیے قدرت کا اثبات کرتا ہے ۔اور خالق کی بجائے خودہی اپنے افعال مقدر کرتا ہے ۔یہ لعنت میں بھی ایسے ہی ہے کیوں کہ ضائع اسے کہتے ہیں جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ سونا ڈھالتاہے نہ کہ ضائع اسے لیتے ہیں جس کے سوناڈھالا جائے ۔اسی طرح نجار اس کو کہتے ہیں جو لکڑی کے کام کو اپنی طرف منسوب کرتاہے نہ کہ اس کو جس کاکام کہاجاتاہے ۔ تو جب تم یہ گمان کرتاہوکہ تم خود ہی اپنے ایمان کو مقدر کرتے ہورب کی بجائے تو پھر یہ واجب ٹھہراکہ تم ہی قدریہ ہو۔اور ہم قدریہ نہ ہوں کیوں کہ ہم اعمال کو اپنے نفس کی طرف مضاف نہیں کرتے۔بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اعمال مقدرکیے گئے ہیں ۔ ۲۲۔ان سے کہا جائے گا جس نے اللہ کے لیے تقدیر ثابت کی اگر وہ رہی ہے تو ہم جب تم سے یہ گمان کیا ہے کہ اللہ نے زمین وآسمان اور طاعات کو مقدرکیا تو پھر تم بھی قدریہ ہوتے اور جب یہ لازم نہیں تم تھاراقول باعمل ہو ااور تمھاراکام توناقص ہوا۔ |