﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (1) مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (2) سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ﴾ (تبت:۱۔۳) ’’ابولہب کے دونوہاتھ تباہ ہوں اور وہ ہلاک ہونہ اس کامال اسکے کسی کام آیااور نہ وہ جو اس نے کمایاوہ جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا ‘‘ اس کے باوفو د اللہ اس کو اس کو ایمان کا حکم دیاہے اور یہ بھی اس یہ واجب کیا ہے کہ وہ یہ جان لے کہ وہ ایمان نہیں ملائے گا۔اور اللہ اس کے ایمان نہ دلانے کے متعلق خبردینے میں سچاہے۔اس کے باوجوداس کو حکم دیاکہ وہ ایمان لائے اور ایمان اور یہ علم کہ ایمان نہیں ہوسکتا اور کوء اس پر قدت نہیں رکھتاکہ وہ ایمان بھی لائے اور یہ بھی جان لے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ اور جب معاملہ اس طرح تو اللہ نے ابو لہب کو اس کا حکم دیاہے جس کا وہ قادر نہیں کیوں کہ حکم دیاایمان کا جب کہ وہ جانتاہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ ۱۹۔مسئلہ :ان سے کہا جائے گا :کیا اللہ نے اسے شخص کو بھی ایمان کا حکم نہیں دیا جس کے متعلق اس نے جاناہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا ۔وہ ہاں کہیں گے ہاں اس پر انھیں کہاجائے گا :تم لوگ ایمان پر قادر ہو اور تمھارے لیے یہ ممکن ہے ؟اگر کہیں تو ہمارے موافق ہوگے اور اگرکہا ہاں توپھرانھوں نے گمان کیا کہ لوگ اللہ کے علم سے خروج پر قادر ہیں قال اللّٰہ عزوجل من ذلک علواکبیرا۔ ۲۰۔مسئلہ :معتزلہ کارد۔ابوالحسن اشعری کہتے ہیں ۔ان لوگو ں سے کہا جائے گا :کیا مجھ جس نے شیطان کو اپنے شر پر قادرثابت نہیں کیا جس پر اللہ بھی قادر نہیں اور وہ اس موقف کی وجہ سے کافر ہوئے ؟ہاں کے بغیر کوئی چارہ نہی ہوگا۔ اس پر انھیں کہا جائے گا:جب تمہارایہ گمان ہے کہ کفار کفر پر قادر ہیں اللہ کے ہاں تو تم نے مجوس کے کی بات میں اضافہ کیا ہے کیوں کہ جی یہ کیتے ہوکہ شیطان اسے شر پر قادر رہے جس پر اللہ قادر نہیں پس تم نے ان کی بات میں اضافہ کیا ہے اور اس سے اس حدیث کی بھی |