؟اگروہ کہیں : اس لیے ان کاکیا کہ سفاہت کا ارادہ کرنے والاہی سفیہ ہوتا ہے توکہا جائے گا تم نے یہ کیوں کہا؟کیا اللہ نے ابن آدم کے متعلق خبرنہیں دی کہ اس نے اپنے بھائی سے کہا : ﴿ لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (28) إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ﴾}(المائدہ :۲۸۔۲۹) ۴۹۸۔ ’’اگر توجمع ہو مارنے کے لیے میری طرف اپناہاتھ بڑھائے گاتوبھی میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپناہاتھ نہیں بڑھاؤں گامیں توفقط اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں میں چاہتاہوں کہ تم میرااوراپناگناہ سب کچھ سمیت لے اور اہل جہنم میں سے ہوجائے اور ظالم لوگوں کی یہی سزا ہے ‘‘ ابن آدم نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے جانی کو قتل نہ کرے تاکہ عذاب نہ دیا جائے ملکہ اس کا بھائی اسی قتل کرتے تاکہ وہ اس کے قتل اور اپنے گناہوں کا بوجھ کے لیے اور دوزخیوں سے ہوجائے ۔پس اسی نے ارادہ کیا کلاس کا جائی اسی قتل کرے ۔یہ قتل سفایت ہے مگراس ارادہ کے باوجودوہ خود مسفیہ نہ ٹھہرا۔رق یہاں تم نے یہ گمان کیا کہ اللہ جب بندوں سے سفایت کا ارادہ کرتاہے تو یہ واجب ٹھہرایاہے کہ یہ سفایت میں کی طرف منسوب ہو: مسئلہ :ان سے کہاجائے گا:یوسف علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ﴾ (یوسف:۳۲) ’’اے میرے رب !جس چیز کی طرف مجھے بلارہی ھے اس لیے مجھے قید ہی زیادہ پسند ھے ‘‘ ان لوگوں کو انھیں قید کرنامعصیت تھی ۔یوسف علیہ السلام نے ان سے اس معصیت کا ارادہ کیا اس کام کے ارادہ کی بجائے جس کی وہ یوسف علیہ السلام کو دعوت دے رہے تھے۔اس ارادہ کے باوجود یوسف علیہ السلام سفیہہ نہ ٹھہرے،تواس کا انکار کیوں کہ اللہ جب بندوں کی سفاہت کا |