۱۶: ان سے کہا جائے گا : کیا تم مانتے ہو کہ اللہ کو اپنے اولیاء واعداء میں فرق کا علم ہے اور وہ فرق کرنے کا مرید بھی ہے اور کیا جب وہ ایمان کا ارادہ کرلے تو اس کے لیے ارادہ للایمان ہے؟(الف)اگر کہیں ہاں تو ہمارے موافق ہو گئے (ب)اگر کہیں کہ جب ایمان کا ارادہ کرے تب اسی کا ارادہ ہو تا ہے تو کہا جائے گا :اسی طرح جب اس نے اپنے اولیاء واعداء میں فرق کیا تو لازمی ہوا کہ اس کو اس کا علم بھی ہے ۔(ج)یہ کیسے جائز ہے کہ مخلوق کو اس کا علم ہو اور خالق کو نہ ہو۔ اس سے تو یہ واجب آتا ہے کہ علم میں مخلوق کو خالق پرفضیلت حاصل ہے ۔﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴾ ۔ ۱۷: ان سے کہا جائے گا :مخلوق میں سے جس کو علم ہو وہ منزلت و رفعت کا اس سے زیادہ اولی ہوتا جس کو علم نہ ہو۔اور تم نے گمان کیا ہے کہ اللہ کا علم نہیں ۔اس سے تمھیں یہ لازم آتا ہے کہ مخلوق خالق سے مرتبہ میں اعلی ہے ۔﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴾ ۔ ۱۸: ان سے کہا جائے گا : مخلوق میں جس کو علم نہ ہو اس سے جھل و نقصان کا الحاق ہوتا ہے ۔تو اس کا انکار کیوں کرو گے کہ اللہ کے لیے علم کا اثبات لازم ہے نہیں تو اس سے نقصان کا الحاق ہو گا۔جل وعزعن قولکم وعلا۔تم دیکھتے نہیں کہ مخلوق میں سے جو جانتا نہیں اس سے جھل ونقصان کا الحاق ہوتا ہے ۔اور جن نے اللہ کے متعلق یہ کہا اس نے اللہ کا ایسا وصف بیان کیا جو اس کے لائق نہیں ۔اور جب مخلوق میں سے جس کو علم نہ ہوا اس سے جھل ونقصان کا الحاق ہوتا ہے تو واجب ہوا کہ علم کی اللہ سے نفی نہ کی جائے کیوں کہ اس سے جھل ونقصان کا الحاق نہیں ہوتا۔ ۱۹: ان سے پوچھا جائے گا :یہ جائز ہے کہ حکمت کی صفت کا اس شخص سے صدور ہو جو عالم نہ ہو اگر وہ کہیں یہ محال ہے اور یہ حکمتیں جو ترتیب اور نظام کے مطابق چل رہی ہیں یہ صرف عالم قادر زندہ ہی سے صادر ہو سکتی ہیں ۔تو کہا جائے گا : اسی طرح یہ جائز نہیں کہ یہ حکمتیں جو ترتیب اور نظام کے مطابق جاری ہیں یہ کسی سے صادرہوں الاکہ وہ ذی علم قدرت اور ذی حیات ہو ۔اگر ان کا ظھور کاغیر ذی علم سے جائز ہے تو پھر غیر عالم ،غیر قادر |