طرح جب مومنین سے رضا ثابت کیا تو رضا کے اثبات کے بغیر چارہ نہ ہوا ۔اسی طرح جب ہم نے حیی اور سمیع و بصیر ثابت کیا تو حیوۃ اور سمع و بصر کے اثبات کے بغیر چارہ نہ ہوا۔ ۱۴: ان سے کہا جائے گا:ہم نے (الف)عالم کے اسم کو علم سے اسبق پایا ہے۔(ب)قادر کے اسم کو قدرت سے اسبق پایاہے۔(ج)حیی کے اسم کو حیوۃ سے اسبق پایا ہے ۔(د)سمیع کو سمع سے اسبق پایا ہے ۔(ھ)اور بصیر کو بصر سے اسبق پایاہے۔اور اللہ کے اسماء تقلیب کے طریق پر یا معنی کے افادہ کے لیے مشتق ہونے سے خالی نہیں ۔اور یہ جائز نہیں کہ ہم اللہ کو عالم قادر تقلیب کی صورت کہیں جس میں نہ تو افادہ معنی ہو اور نہ صفت سے مشتق ہو ۔اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو یہ باجماع المسلمین تلقیب کے طریق پر نہیں ہوتے۔اور جب تلقیب نہ ہوتے تو علم سے مشتق ہوئے ۔تو علم کا اثبات واجب ہو۔اور اگر یہ اسماء افادہ معنی کے ہیں ، پھر یہ اس سے مختلف نہیں ہو سکتے جس معنی کے افادہ کے لیے ہیں ۔ اور جب یہ واجب ہوا کہ ہم میں عالم ذو علم ہی ہوتا تو واجب ہوا کہ ہر عالم ذو علم ہو۔جیسے ’’موجود ‘‘کا لفظ بولنا اثبات کا فائدہ دیتا ہے تو باری تعالیٰ کا اثبات واجب ہوا کیوں کہ وہ بھی موجود ہے ۔ ۱۵: معتزلہ ، جہمیہ اور حروریہ سے کہا جائے گا :کیا اللہ کا ایسا علم ہے جو اشیاء میں سابق ہے اور اس کو حامل کے حمل جننے ،ہر عورت کے حمل اور اتارنے والی چیز نے جو اتارا ہے اس کا علم ہے؟اگر وہ ہاں کہیں تو انھوں نے علم کا اثبات کردیا۔(ب)اگر کہیں کہ نہیں تو کہا جائے گا تم نے اللہ کے ان فرامین کا انکار کیا ہے ۔ ﴿ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ ﴾(النساء:۱۶۶) ﴿ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ﴾ (فاطر:۱۱) ﴿ فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ ﴾ (ھود:۱۴)(ج) ﴿﴾ (بکل شیء علیم) ﴿ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا ﴾(الانعام::۵۹)آیات جب یہ واجب کرتی ہیں کہ وہ علیم ہو،اشیاء کو جانتا ہو تو اس کا انکار کیوں کہ یہ آیات یہ بھی واجب کرتی ہوں کہ اللہ کے لیے علم بالاشیاء ہے۔ |