لیں تو کہا جائے گا مرید جب ارادہ کے بغیر نہیں ہو سکتا تو اس کا انکار کیوں ؟ کہ عالم بھی بغیر علم کے نہیں ہو سکتا۔اور اس کا انکار کیوں ؟کہ اللہ کا علم بھی ہو جیسے تم نے اس کے لیے ارادے کا اثبات کیا ہے ۔ ۷: انھوں نے علم اور کلام کے مابین فرق کیا ہے ۔اور کہا ہے کہ اللہ کے علم میں موسیٰ علیہ السلام اور فرعون دونوں تھے مگر کلام اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا،فرعون سے نہیں ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکمت اور فصل خطاب سکھلایا،نبوت دی،اور فرعون کو یہ نہیں سکھلایا۔اب اگر اللہ کا کلام اس لیے ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا، فرعون سے نہیں تو علم بھی اسی طرح ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھایا فرعون کو نہیں ۔مزید برآں ان سے کہا جائے گا:جب یہ واجب ہوا کہ اللہ کا کلام ہے جس سے اس نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا فرعون سے نہ کیا تو اس کا انکار کیوں کہ جب اس نے ان دونوں کوجانا تو اس کا علم بھی ہوا۔اس پر مستزاد اللہ نے تمام اشیاء سے کن کہہ کر کلام کیا،اور تم نے اللہ کے لیے قول کو ثابت کیا ۔اسی طرح اس نے تمام اشیاء کو جانا بھی ہے تو تم علم بھی ثابت کرو۔ ۸: ان لوگوں سے کہا جائے گا :تم نے اللہ کے لیے کلام کو واجب کیا ہے علم کی نفی کی ہے کیونکہ کلام علم سے اخص ہے اورعلم اس سے اعم تو پھر اللہ کی قدرت بھی مانوں ، کیونکہ علم تو تمہارے ہاں قدرت سے بھی عام ہے۔قدریہ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کفر پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ۔پس یہ قدرت کو علم سے اخص ثابت کرتے ہیں ۔پس جو علم انہوں نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ان کو چاہیے کہ اللہ کے لیے قدرت کا بھی اثبات کریں ۔ ۹: ان سے کہا جائے گا:کیا اللہ عالم نہیں ؟اور عالم کا وصف متکلم و مکلم کے وصف سے عام ہے ۔ ۱۰: ان سے کہا جائے گا:تمہیں کیسے علم ہوا کہ اللہ عالم ہے ؟اگر وہ کہیں اس آیت سے﴿ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾(الشوری:۱۲)’’بلاشبہ وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘ توکہا جائے گا: |