لے آئے اور کہا کہ نہ تو اللہ کا علم ہے نہ قدرت ۔اور اصل میں یہی قول ہے کہ اللہ تو عالم ہے نہ قادر ۔یہ بات انھوں نے اصحاب زندقہ و تعطیل سے لی ہے ۔کیوں کہ زناقہ میں سے اکثر نے کہا ہے کہ اللہ نہ تو عالم ہے نہ قادر اور نہ ہی سمیع۔معتزلہ یہ لفظ نہ بول سکے تو معنی لے آئے۔اور صرف نام کی حد تک کہا کہ اللہ عالم قادر حیی سمیع و بصیر ہے ۔علم وقدرت اور سمع وبصر کی حقیقت ثابت نہ کی۔ ۳: ان کے رؤساء میں سے ایک شخص ابو الھذیل علاف کہتا ہے کہ اللہ کا علم اللہ ہی ہے اس شخص نے اللہ عزوجل کو علم بنادیا ۔اور اس پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ یہ بھی کہے :یا علم!اغفرلی وارحمنی ۔مگر یہ نہ مانہ ،نہ ماننے پر اسے تناقص لازم آیا۔ اللہ آپ پر رحم کرے(قارئین)یہ بھی جان لیں کہ جو کہے بغیر علم کے عالم ہے اس کو بھی تناقص لازم ہے ۔اسی طرح جس نے کہا :علم والا عالم ہے اور تناقص کا شکار ہوا۔علم کی طرح ہے قدرت ،قادر ،حیاۃ،حیی،سمع و بصر اور سمیع و بصیر کا معاملہ ہے ۔ ۴: ان سے کہاجائے گا:بتاؤ جس نے گمان کیا کہ اللہ ہمیشہ سے آمر و ناھی ہے اور متکلم و قائل ہے مکر نہ اس کا قول نہ کلام اور نہ امراور نہی ہے۔کیا یہ قول جملہ مسلمین سے خارج نہیں ؟ہاں کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ان سے کہا جائے گا:اسی طرح اس کا قول بھی جملہ مسلمین سے خارج ہے جس نے کہا کہ اللہ علم ہے مگر اس کا علم نہیں ۔ ۵: جہمیہ،معتزلہ اور حروریہ سے قبل مسلمانوں کا اسی پر اجماع تھا کہ اللہ ازل سے صفت علم سے متصف ہے ۔اور وہ کہتے تھے کہ اللہ کا علم ازل سے ہے۔اللہ کا علم اشیاء میں سبقت لے جا چکا ہے اور جو بھی کسی کو حادثہ یا مصیبت آتی وہ کہتے کہ اللہ کو اس کا پہلے سے علم تھا۔پس جس نے اللہ کے علم کا انکار کیا اس نے مسلمانوں کی مخالفت کی اور ان کے اجماع سے خروج کیا ۔ ۶: ان سے کہا جائے گا:اللہ مرید ہے تو کیا اس کا ارادہ ہے ؟اگرکہیں نہیں تو کہا جائے گا :پھر ایک ایسے قائل کا بھی اثبات کرو جس کا قول نہ ہوا۔اگر یہ ارادہ کو ثابت مان |