ہو نہ جارحہ۔ ۲۲: اگر وہ کہیں ﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾(ص:۷۵)سے تم نے دو ہاتھوں کا اثبات کیا ہے تو ﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا ﴾(یس:۷۱)سے زیادہ ہاتھوں کا اثبات کیوں نہیں کرتے؟ ان سے کہا جائے گا:دو سے زیادہ ہاتھوں کا اثبات کرنے والے کے قول کے بطلا ان پر اجماع ہو چکا ہے۔اور جب اجماع ہے تو واجب ہوا کہ اللہ نے ایدی کہہ کر یدین کا اثبات مراد کیا ہو۔اجماع کی صحت پر دلیل بھی موجود ہے۔اور اجماع صحیح ہے تو وہ واجب ہوا کہ ایدی سے یدین کی طرف پلٹ جائے۔کیوں قرآن اپنے ظاہر پر ہے ۔ہم ظاہر سے اس کو دلیل کی بناء پر ہی پھیرتے ہیں ہم نے حجت پالی جس کی وساطت سے ہم نے ایدی کو ظاہر سے ایک دوسرے ظاہر کی طرف پھیرا ۔اور یہ بھی واجب ہوا کہ دوسرا ظاہر اپنے حقیقت پر ہے حتی کہ اس کو ظاہر سے پھیرنے والی کوئی حجت مل جائے۔ ۲۳: اگر کوئی کہے :اللہ ایدی کہہ کر یدین مراد لیتا ہے تو اس کا انکار کیوں کرو گے کہ ایدی کہہ کر وہ ایک ہاتھ مراد لے ؟اس شخص سے کہا جائے گا: ا:اللہ نے ایدی سے یدین ہی مراد لیے ہیں کیوں کہ زیادہ ہاتھ اور ایک ہاتھ کے قائلین کے قول کے بطلان پر اجماع ہے۔ ب:اس لیے ہم نے یدین کہا ہے کیوں کہ قرآن ظاہر پر ہے ۔الاکہ صار ف عن الظاہر کوئی حجت ودلیل ہو۔ ۲۴: اگر کوئی کہے :اس کا انکار کیوں کرو گے کہ﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا ﴾ اور ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾مجاز ہوں ۔[1] ا:اس سے کہا جائے گا :اللہ کے کلام کا حکم اپنے ظاہر و حقیقت پر ہے ظاہر سے مجاز کی طرف کسی حجت ہی سے جایا جاسکتا ہے۔ دیکھتے نہیں کہ جب کلام کا ظاہر عموم ہو |