اور اس لیے بھی کہ یہ جائز نہیں کوئی کہے میرے اس پر دو ہاتھ ہیں ۔اور مراد یہ لے کہ میری اس پر دو نعمتیں ہیں ۔اور جو اس مسئلہ میں اھل زبان سے رجوع نہ کرے اور ہماری اس بات کی تردید کرے تو اس نے (گویا)یدکے تردید کے معنی میں ہونے کی نفی کر دی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف لغت کے اعتبار ہی سے وہ ید کو نعمت کے معنی میں لینے کا دعوی کر سکتا ہے ۔تو جب وہ لغت کو رد کر دے گا تو اس کو یہ لازم آے گا کہ وہ لغت سے حجت نہ پکڑے اور نہ ہی لغت سے تفسیر قرآن کرے ۔اور نہ ہی لغت کے ذریعے ید کو نعمت معنی میں ثابت کرے ۔لغت کو رد کر کے خود ہی اپنی بات کی وہ تردید اس لیے بھی کردے گا کہ ید کی نعمت سے تفسیر کرتے ہیں اگر وہ اجماع کی طرف آئے گا تو مسلمان اس کے دعوٰی پر متفق نہیں لغت کی طرف آیا تو لغت میں ’’بیدی‘‘کہہ کر نعمت مراد لینا ہے ہی لیں ۔اگر کسی تیسری چیز کی طرف آتا تو اس کے متعلق ہم اس سے سوال کریں گے اور ہرگز بھی اللہ اس کے لیے تیسری چیز کی طرف راستہ نہ بنائے گا۔ ۱۷: اہل بدعت سے پوچھا جائے تم نے بیدی کو نعمت کے معنی میں کیوں لیا۔اجماع کی وجہ سے یا لغت کی وجہ سے۔نہ تو وہ یہ بات لغت میں پائیں گے نہ ہی اجماع میں ۔اگر کہیں قیاس سے دلیل لی ہے تو کہا جائے گا قیاس میں تم نے کہاں پالیا ہے کہ ’’بیدی‘‘ کا معنی نعمت ہی ہے ؟اور عقل کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ جان لے فلاں کی تفسیر ایسے ایسے ہے ۔جب کہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایاہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ ﴾(ابراہیم:۴)اور فرمایا: ﴿ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ﴾ (النحل:۱۰۳)اور فرمایا:﴿إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا﴾(الزخرف:۳)’’ہم نے قرآن کو عربی زبان بنایاہے ‘‘اور فرمایا: ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ ﴾ (النساء:۸۲)’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا ‘‘ اگر قرآن غیر عربی میں ہوتا تو اس کو سن کر اس کے معانی پہچاننا اور اس میں تدبر کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہوتا۔جب عربی زبان کو اچھی طرح نہ جاننے والا اس کو اچھی طرح نہیں |