Maktaba Wahhabi

119 - 184
پڑھ سکتا اور عرب سن کر پہچان لیتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ عرب اس لیے اس کو جانتے ہیں کیوں وہ ان کی زبان میں نازل ہوا ہے ۔اور جہمیہ نے دعوٰی کیا ہے وہ اہل عرب کی زبان میں موجود نہیں ۔ ۱۸: کسی نے ﴿ وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ ﴾(الذاریات:۴۷)’’اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا‘‘سے بھی دلیل پکڑی ہے ۔اور کہا ہے کہ ایدی کا معنی ہے قوت اس لیے واجب ہوا کہ بیدی کا معنی قدرتی ہو!اس کو کہا جائے گا کہ یہ تاویل بوجود فاسد ہے۔ الف:ایدی ید کی جمع نہیں ۔ اللہ نے فرمایاہے﴿ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾(ص:۷۵)اس سے یہ باطل ٹھہرتا ہے کہ اس کا معنی بنینھا باید ہوا ب:اگر قدرت کا معنی یہاں مراد ہوتا تو بیدی کا مطلب ہونا تھا جس کو میں نے اپنی دو قدرتوں سے پیدا کیا۔جب کہ یہ معنی ہمارے مخالفین کے اپنے قول کے مخالف ہے۔کیوں کہ وہ صرف ایک قدرت کا اثبات کرتے ہیں یہاں دو کا کیسے کریں گے۔ ج:اگر اللہ نے قدرت ہی مراد لی ہوتی تو اس میں آدم علیہ السلام کی ابلیس پر کیا مزیت تھی ۔اللہ عزوجل تو آدم کی فضیلت دکھانے چاہتے تھے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے پیداکیا ۔اگر ابلیس کو بھی اپنے ہاتھ ہی سے پیدا کر لیا جیسے آدم کو پیدا کیا تو پھر امتیاز کی کیا وجہ! ابلیس اپنے رب کو کہتا مجھے بھی تو تو نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے جیسے تو نے آدم کو پیدا کیا ہے ۔اللہ عزوجل نے آدم کو ابلیس پر فضیلت دینے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے پر ابلیس کو سر زنش کرتے ہوئے جب یہ کہا ﴿ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ﴾(ص:۷۵)’’جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روک دیا ‘‘تو اس سے یہ دلیل ملی کہ آیت کا معنی قدرت پس کیوں کہ اللہ نے تمام اشیاء ہی کو اپنی قدرت سے پیدا فرمایا ہے۔اللہ نے اس آیت سے دو ہاتھوں کے اثبات کا ارادہ فرمایا اور ان سے پیدا کرنے میں ابلیس کو شریک نہ کیا۔
Flag Counter