پھر عورت کا اس کے مملوک غلام کے ساتھ نکاح نہیں ہوتا تو مندرجہ بالا تعریف کے مطابق مملوک غلام مالکہ عورت کا محرم بنتا ہے۔ جبکہ حدیث ہے: (( من ملک ذارحم محرم منہ فقد عتق علیہ۔))[1] [’’جو شخص اپنے کسی قریبی رشتہ دار کا مالک بنے تو غلام بننے والا آزاد ہی رہے گا۔‘‘]اور اگر یہ مملوک غلام مالکہ عورت کے محرموں سے نہ ہو تو آزاد نہیں ہوتا تو محض مملوک ہونا ہی محرم بننا نہیں ۔
پھر کسی مسلم عورت کی رشتہ دار عورت غیر مسلم ہے ، مثلاً اس کے چچا کی بیٹی یا اس کے ماموں کی بیٹی۔ اب اس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہے۔ کیونکہ عورت کا عورت کے ساتھ نکاح نہیں ہوتا، جبکہ یہ دونوں آپس میں محرم نہیں اور مسلم عورت پر ایسی عورت سے پردہ کرنا بھی فرض ہے، تو پتہ چلا کہ قاعدہ ’’ عورت کا جس سے کسی وقت بھی نکاح نہ ہوسکے وہ اس سے پردہ نہ کرے۔ ‘‘ درست نہیں ۔ کیونکہ مسلم عورت کا غیر مسلم عورت کے ساتھ نکاح کسی وقت بھی نہیں ہوسکتا، جبکہ اس سے پردہ کرنا فرض ہے۔
پھر تعریف میں ’’ جن سے کسی عورت کا نکاح ‘‘ کے اندر یہ کسی کا لفظ عجیب ہے۔ اس کا حذف ہی مناسب ہے۔
۴ / ۲ / ۱۴۲۳ھ
٭٭٭
|