Maktaba Wahhabi

230 - 822
والا ہے۔ جیسے سجدے کو پانے والا لہٰذا اس کو نماز پانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دیکھئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت نہیں ۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : (( لا یجزئک إلا أن تدرک الإمام قائما))ان لفظو ں کے متعلق شیخ صاحب خود لکھتے ہیں : (( فقد ثبت ھذا عن أبی ھریرۃ رضی ا للّٰه عنہ لتصریح ابن إسحاق بالحدیث فزالت شبھۃ تدلیسہ))[إرواء الغلیل ۲؍ ۲۶۵]اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اس مرفوع حدیث میں لفظ ’’ رکعۃ ‘‘سے مراد رکوع ہے تو ہم جواباً گزارش کریں گے رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے حقیقت نہیں ۔ (( والأصل أن یحمل اللفظ علی الحقیقۃ ، ولا قرینۃ ھھنا تمنع أن یحمل اللفظ علی حقیقیۃ وکون لفظ ’’رکعۃ‘‘ھٰھنا بعد قولہ صلی ا للّٰه علیہ وسلم ’’ فاسجدوا ‘‘ لیس من القرینۃ فی شیء لضعف دلالۃ الاقتران فھذا الحدیث یدل بالمنطوق علی أن مدرک السجدہ لیس بمدرک للرکعۃ وأن مدرک الرکعۃ مدرک للصلاۃ ویدل بالمفہوم أن مدرک مادون الرکعۃ کمدرک الرکوع مثلا لیس بمدرک للصلاۃ))باقی رہی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث (( إن ذلک من السنۃ))تو وہ ضف کے پیچھے دو رکوع کرکے صف میں شامل ہوکے متعلق ہے۔ مدرکِ رکوع کے مدرکِ رکعت ہونے کے متعلق نہیں ۔ جیسا کہ شیخ صاحب کی إرواء الغلیل میں تقریر سے واضح ہے۔ لہٰذا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مدرک رکعت ہونے کی دلیل بنانا درست نہیں ۔ آمین بالجہر س: کیا مقتدی فاتحہ کے ختم ہونے کے فوراً بعد آمین کہیں ؟ یا امام کے ساتھ کہیں ؟ یا امام کی آمین سن کر کہیں ؟ (ماسٹر سیف اللہ خالد) ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جب امام وقاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘ [1] [اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مقتدی نے ابھی سورۂ فاتحہ شروع یا ختم نہیں کی وہ بھی آمین کہنے میں دوسروں کے ساتھ شریک ہوگا۔ بعد میں وہ اپنی فاتحہ مکمل کرکے دوبارہ آہستہ آمین کہے گا۔] اور ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ جب امام و قاری ’’ ولا الضّآلّین ‘‘کہے تو تم آمین کہو۔‘‘[2] دونوں فرمانوں کے ملانے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام و مقتدی دونوں ہی آمین اکٹھے کہیں ۔ ۷ ؍ ۲ ؍ ۱۴۲۳ھ
Flag Counter