Maktaba Wahhabi

509 - 822
[دلیل کے لیے صحیح بخاری/کتاب الحرث والمزارعۃ/باب کراء الارض بالذھب والفصۃ کا مطالعہ کریں ۔][1] ۲۲/۷/۱۴۲۱ھ س: کیا مکان کا کرایہ مالک مکان کے لیے سود کے زمرے میں آتا ہے جبکہ اس کا مکان ویسے کا ویسا ہے اور محنت بھی صرف نہیں ہوئی۔(حافظ محمد فاروق تبسم) ج: نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زمین کرایہ پر دی جاتی تھی۔ حالانکہ زمین بھی ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے ہاں مزارعت کی بعض مخصوص صورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرور منع فرمایا ہے۔ ۲/۳/۱۴۲۱ھ س: کیا زمین بطورِ رہن دی اور لی جا سکتی ہے اس پر جزاء اور سزا کیا ہو گی؟ (ماسٹر سیف اللہ خالد ، اوکاڑہ) ج: زمین زرعی و غیر زرعی کا رہن لینا دینا سود نہ بنے تو شرعاً درست ہے اور اگر سود بنے تو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾[البقرۃ:۲۸۵][’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] ۷/۲/۱۴۲۳ھ [رہن کی تعریف] مقروض قرض کے تحفظ کے لیے کوئی چیز قرض خواہ( قرض دینے والے) کے پاس رکھتا ہے ، تاکہ وہ عدم ادائیگی کی صورت میں یہ چیز یا اس کی قیمت سے قرض منہا کر لے ( کاٹ کر وصول کر لے) مثلاً ایک شخص نے کسی سے قرض طلب کیا ، قرض دینے والا مطالبہ کرتا ہے کہ قرض کے تحفظ(دوسرے لفظوں میں میری تسلی) کے لیے تو میرے پاس ( اپنی کوئی چیز) یا جانور یا زمین وغیرہ گروی رکھ ، جب ’’ادائیگی قرض ‘‘ کا وقت آئے گا اور مقروض قرض ادا کر سکے گا تو قرض خواہ( یا تو قرض وصول کر کے گروی چیز مقروض کو واپس کر دے گا یا اسی) گروی چیز میں سے اپنا قرض وصول کر لے گا۔ قرض خواہ کو ’’مرتہن‘‘ کہتے ہیں اور مقروض کو’’راہن‘‘ اور گروی رکھی ہوئی چیز کو ’’رہن ‘‘ یا ’’مرہون‘‘ کہا جاتا ہے۔ رہن کا حکم: قرض میں کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌمَّقْبُوْضَۃٌ ط﴾ [البقرۃ:۲/۲۸۳] ’’اگر تم سفر میں ہو اور ( قرضے کی دستاویز) لکھنے والا نہ پاؤ تو گروی چیز قبضہ میں کر لی جائے۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
Flag Counter