Maktaba Wahhabi

350 - 822
ج: اس موقع پر دعاء ثابت ہے، البتہ ہاتھ اٹھانا اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ چنانچہ آپ نے بذاتِ خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا ترجمہ نقل فرمایا: ’’ سو حیض والیاں جدا رہیں نماز کی جگہ سے اور حاضر ہوں اس کارِ نیک میں اور مسلمانوں کی دعا میں ۔‘‘ [1]تو محترم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ اور مسلمانوں کی دعاء میں ۔‘‘ جیسا کہ آپ نے ترجمہ نقل فرمایا: ’’ اور مسلمانوں کی دعاء میں ہاتھ اٹھانے میں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ۔ غور فرمائیں دونوں میں فرق ہے، بہت فائدہ ہوگا۔ ان شاء اللہ الحنان۔ ۲۴ ؍ ۱۲ ؍ ۱۴۲۱ھ نمازِ تسبیح س: کیا نمازِ تسبیح ثابت ہے یا نہیں ؟ (محمد حسین، کراچی) ج: حافظ ابن حجر عسقلانی الأجوبۃ عن أحادیث المصابیح میں حدیث صلاۃ تسابیح کے متعلق لکھتے ہیں :(( فأما حدیث ابن عباس فجاء عنہ من طرق أقواہا ما أخرجہ أبو داؤد ، وابن ماجہ ، وابن خزیمۃ ، وغیرھم من طریق الحکم بن أبان عن عکرمۃ عنہ ، ولہ طرق أخری عن ابن عباس من روایۃ عطاء ، وأبی الجوزاء ، وغیرھما عنہ۔ وقال مسلم فیما رواہ الخلیلی فی الإرشاد بسندہ عنہ: لایروی فی ھذا الحدیث إسنادہ أحسن من ھذا۔ وقال أبوبکر بن أبی داؤد عن أبیہ: لیس فی صلاۃ التسبیح حدیث صحیح غیرہ۔ وقال ابن حجر فی آخر مبحث حکم حدیث صلاۃ التسبیح من الأجوبۃ: وقد وقع فیہ مثال ما تناقض فیہ المتأولان فی التصحیح والتضعیف ، وھما الحاکم ، وابن الجوزی فإن الحاکم مشہور بالتساھل فی التصحیح ، وابن الجوزی مشہور بالتساہل فی دعوی الوضع کل منھما حکم علی ھذا الحدیث ، فصرح الحاکم بأنہ صحیح ، وابن الجوزی بأنہ موضوع ، والحق أنہ فی درجۃ الحسن لکثرۃ طرقہ التی یتقوی بھا الطریق الأولی۔ واللّٰہ أعلم۔)) وقال المحدث الألبانی فی التعلیق علی المشکاۃ: أبو داؤد رقم (۱۲۹۷) وابن ماجہ (۱۳۸۷) بإسناد ضعیف فیہ موسٰی بن عبدالعزیز ثنا الحکم بن أبان ، وکلاھما
Flag Counter