Maktaba Wahhabi

505 - 822
اور میسر و جوئے کو اللہ تعالیٰ نے ﴿رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ [المآئدۃ :۹۰] [’’گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پا سکو۔‘‘] قرار دیا ہے اس لیے بھی یہ بیع حرام ہے۔ (۳)…ایک لاکھ پہلے بطورِ قرض دے کر مشتری کا بائع سے فائدہ اُٹھانا بھی اس بیع میں پایا جاتا ہے جو سود کے زمرہ میں شامل ہے اور سود بھی حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ:۲۸۵] [’’اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘] لہٰذا یہ بیع بھی حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا فرمان : ((لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَّ بَیْعٌ)) [1] کی رو سے بھی یہ بیع حرام ہے جو صورتِ بیع آپ نے تحریر فرمائی ہے یہ بیع سلم کی صورت نہیں ۔ بالفرض کوئی صاحب اس صورت کو بیع سلم میں شامل کریں تو بھی پہلی دو وجوہ کی بناء پر یہ بیع ناجائز اور حرام ہے۔ واللہ اعلم ۶/۲/۱۴۲۳ھ [بیع سلم(سلف) [بیع سلم(سلف) بیع سلم کی تعریف: اسے ’’بیع سلف ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، جس میں ایک مسلمان سامان خریدتا ہے ، جس کی صفت معلوم ہے ، بائع سے سامان وصول کرنے کا وقت بھی معلوم ہے اور وہ سودا طے ہوتے ہی ’’بائع ‘‘ کو پوری رقم پیشگی دے دیتا ہے اور معین میعاد آنے پر اس سے سامان وصول کرلیتا ہے۔ بیع سلم کا حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ یہ بیع جائز ہے ۔ اس لیے کہ یہ بھی بیع( خرید وفروخت) ہے اور یہاں عدم جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ أَسْلَفَ فِيْ شَیْئٍ فَلْیُسْلِفْ فِيْ کَیْلٍ مَعْلُوْمٍ وَّ وَزْنٍ مَعْلُوْمٍ اِلٰی أَجَلٍ مَّعْلُومٍ)) [2] ’’ جو شخص کسی چیز کی پیشگی رقم دیتا ہے تو وہ معین ناپ(یا) مقررہ وزن میں ایک معین مدت تک کے لیے سودا کرے۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سال دو سال اور تین سال کی میعاد پر ’’بیع سلم‘‘ کرتے تھے۔[3]
Flag Counter