میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غلط ہے کہ اگر کسی ایک قسط میں دیر ہو جائے تو اس کی باقی اقساط ضبط کرلی جائیں یامدت بڑھا کر ان میں اضافہ کر دیا جائے ایسا کرنا سراسر زیادتی اور ظلم کے ساتھ ساتھ صریح سود ہے۔ (واللہ اعلم)
از عبدالمنان نور پوری بطرف محترم محمد بشیر سیالکوٹی
(رئیس التحریر مجلۃ ’’نداء الاسلام‘‘ حفظھما اللّٰه القدوس السلام)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ:…
أما بعد! میں نے آپ کے مجلہ ’’ نداء الاسلام ‘‘ کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کا مطالعہ کیا ، اس میں میں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری حفَظہُ ا للّٰه تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ، وَبَارَکَ فِیْ عِلْمِہِ وَعَمَلِہٖ ، وَوَفَّقَنا وَإِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّہُ وَیَرْضَاہُ کا مضمون’’قسطوں کی بیع‘‘ پڑھا ، جس میں انہوں نے قسطوں کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس مضمون کی فصل ’’ مُنَاقَشَۃُ الْأدِلَّۃِ وَبَیَانُ الرَّاجِحِ‘‘( دلائل کا مناقشہ اور راجح چیز کا بیان) میں فرماتے ہیں :
’’راجح ۔ واللہ اعلم۔ یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے خواہ اس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے ، بشرطیکہ خریدو فروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہو جائے ( کہ پیسے تاخیر سے دینے ہیں اور اتنی مقدار میں دینے ہیں ) ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں :
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے……
صاحب مضمون کے دلائل:
صاحب مضمون نے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے مندرجہ ذیل چند دلائل پیش کیے ہیں :
۱۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَأَحَلَّ ا للّٰه الْبَیْعَ﴾(’’اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت حلال کی ہے۔‘‘) (البقرۃ:۲۷۵) کے تحت قسطوں کی بیع بھی داخل ہے۔
۲۔اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِِّنْکُمْ﴾ (اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ ، مگر یہ کہ باہم رضا مندی سے تجارت ہو۔‘‘)(النساء:۲۹) کے تحت بھی داخل ہے۔
۳۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: ((لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ)) (کسی مسلمان کا مال
|