Maktaba Wahhabi

387 - 822
(( وَأَحَادِیْثُ الْبَابِ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الصَّدَقَۃَ مِنَ الْوَلَدِ تَلْحَقُ الْوَالِدَیْنِ بَعْدَ مَوْتِھِمَا بِدُوْنِ وَصِیَّۃٍ مِنْھُمَا وَیَصِلُ إِلَیْھِمَا ثَوَابُھَا فَیُخَصَّصُ بِھٰذِہِ الْاَحَادِیْثِ عَمُوْمُ قَوْلِہٖ تَعَالٰی:﴿ وَأَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی﴾ وَلٰکِنْ لَیْسَ فِیْ أَحَادِیْثِ الْبَابِ اِلاَّ لُحُوْقُ الصَّدَقَۃِ مِنَ الْوَلَدِ وَقَدْ ثَبَتَ اَنَّ وَلَدَ الْاِنْسَانِ مِنْ سَعْیِہٖ فَلاَ حَاجَۃَ إِلٰی دَعْوَی التَّخْصِیْصِ وَاَمَّا مِنْ غَیْرِ الْوَلَدِ فَالظَّاھِرُ مِنَ الْعُمُوْمَاتِ الْقُرْآنِیَۃِ اَنَّہٗ لاَ یَصِلُ ثَوَابُہٗ اِلَی الْمَیِّتِ فَیُوْقَفُ عَلَیْھَا حَتّٰی یَأْتِیَ دَلِیْلٌ یَقْتَضِیْ تَخْصِیصَھَا)) [1] ’’ اس باب کی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اولاد کی طرف سے صدقہ والدین کی وصیت کے بغیر ان کی وفات کے بعد انہیں ملتاہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچتا ہے۔ ان احادیث کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے فرمان (نہیں ہے، انسان کے لیے ، مگر وہی جو اس نے کوشش کی) کے عموم کی تخصیص کی جاتی ہے، لیکن باب کی احادیث میں صرف اولاد کے صدقے کا ذکر ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی و کوشش سے ہے، لہٰذا تخصیص کے دعوے کی حاجت نہیں ۔ بہر کیف اولاد کے علاوہ دیگر افراد قرآنی عمومات میں شامل ہیں ، ان کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ اس پر توقف کیا جائے گا، یہاں تک کہ ایسی دلیل مل جائے ، جو تخصیص کا تقاضا کرے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اولاد کے علاوہ دیگر افراد کا میت کی طرف سے صدقہ کرنا بے دلیل ہے۔ 6 ۔ میت کی طرف سے حج کرنا: میت کی طرف سے حج کرنے کی ایک دلیل تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو کہ ابوداؤد اور بیہقی کے حوالے سے گزرچکی ہے، دوسری دلیل یہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : (( إِنَّ امْرَأَۃً مِنْ جُھَیْنَۃَ جَائَ تْ اِلَی النَّبِیِّ صلی ا للّٰه علیہ وسلم فَقَالَتْ: إِنَّ اُمِّی نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ أَفَاَحُجُّ عَنْھَا؟ قَالَ نَعَمْ حُجِّیْ عَنْھَا اَرَاَیْتِ لَوْکَانَ عَلٰی اُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَتَہٗ؟ اِقْضُو ا للّٰه فَاللّٰہُ اَحَقُّ بِالْوَفَائِ)) [2] ’’ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس نے کہا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی
Flag Counter