Maktaba Wahhabi

556 - 822
س: آج تک یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ قسطوں کا کاروبار حرام اور سود ہے۔ لیکن ہفت روزہ اہل حدیث میں مولانا صاحب نے جائز قرار دیا ہے ۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں ۔ شکریہ۔ (محمد سروردکاندار ، چک چٹھہ ،حافظ آباد) ہفت روزہ اہلحدیث ۲۵ ربیع الاوّل ۱۴۲۳ھ میں مولانا حافظ ابو محمد عبدالستار الحماد میاں چنوں کا فتویٰ سوال :…فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ آج کل قسطوں کا کاروبار تقریباً ۷۵/ فی صد لوگ کر رہے ہیں ، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی گاڑی نقد خریدتا ہے تو وہ پانچ لاکھ روپے کی ہے لیکن قسطوں میں وہی گاڑی آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے کیا یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟ جواب:…واضح رہے کہ صورتِ مسؤلہ کا تعلق مالی معاملات سے ہے ،مالی معاملات کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال رضا مندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے۔‘‘ (سورۃ النساء:۲۹) باطل طریقہ سے مراد لین دین ، کاروبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضا مندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد محفوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا غرر یاضرر کا ہدف بنتا ہے۔ اگر کسی معاملہ میں دھوکا پایا گیا یااس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہو تو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہوں تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں ۔ جنہیں شریعت نے ناجائز ٹھہرایا ہے اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہواور نہ ہی اس میں فریب اور ضرر کو دخل ہو اگر چہ خرید و فروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے۔ ﴿وَاَحَلَّ اللہ الْبَیْعَ ﴾ (بقرۃ: ۲۷۵) [’’اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے۔‘‘]لیکن ہر قسم کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے۔ بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ 1۔فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں ۔ 2۔خرید کر دہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔ 3۔قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔ 4۔فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوا نہ ہو۔ 5۔خرید و فروخت کسی حرام چیز کی نہ ہو اور نہ ہی اس میں سود وغیرہ کو بطورِ حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔ 6۔اس خرید و فروخت میں کسی فریق کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو۔
Flag Counter