Maktaba Wahhabi

624 - 822
پھوپھی کی وفات کے وقت اس کا وارث صرف ایک بھائی ہے اور کوئی وارث نہیں ، نہ پھوپھی کا خاوند ، نہ والدین اور نہ ہی اولاد۔ اگر آپ کا بیان درست ہے ، واقع کے مطابق ہے اور آپ کی پھوپھی نے فوت شدہ بھائی کے بیٹوں کے حق میں دو ایکڑ زمین کی وصیت واقعی فرمائی ہے اور آپ کی پھوپھی کی کل جائیداد کا ثلث(دو ایکڑ ہی بنتا ہے تو وصیت نافذ العمل ہو گی اور باقی جائیداد(زندہ بھائی کو ملے گی اور اگر دو ایکڑ کل جائیداد کے ثلث (سے کم ہے تو بھی وصیت نافذ العمل ہو گی اور باقی( سے زائد جائیداد زندہ بھائی کو ملے گی اور اگر دو ایکڑ کل جائیداد کے ثلث(سے زائد ہے تو جتنی زائد ہے وہ وصیت میں نہیں دی جا ئے گی ثلث (ہی وصیت میں دی جائے گی اور باقی (زندہ بھائی کو ملے گی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ)) [1] [’’اور ثلث ( ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ ‘‘] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا فَمَا بَقِیَ فَھُوَ لاَولیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ)) [2] [’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میراث مقررہ حصہ داروں کو دو اور جو باقی بچے تو رشتہ میں میت کے جو مرد زیادہ قریب ہو اسے دے دو۔‘‘] پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ ا للّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ إِنِ مْرُؤٌ ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَلَہٗ أُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَھُوَ یَرِثُھَا إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ﴾ [’’آپ سے فتوی پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے ، اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو ، پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور اگر کئی شخص اس رشتے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بیان فرما رہا ہے ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے ۔ ‘‘ ][النساء:۱۷۵] یاد رہے کہ آپ کی پھوپھی کی وفات کے وقت آپ کے بیان کے مطابق کل جائیداد دو ایکڑ زمین ، مکان اور ٹیوب ویل ہے کیونکہ دو ایکڑ زمین آپ کی پھوپھی نے آپ کے بیان کے مطابق اپنی زندگی میں اپنے بھائی کو ہبہ کر دی تھی۔ واللہ اعلم ۵؍۵؍۱۴۲۴ھ
Flag Counter