Maktaba Wahhabi

382 - 822
(۶) یا نہر جاری کی۔ (۷) یا اپنی زندگی اور تندرستی میں اپنے مال سے صدقہ نکالا اسے مرنے کے بعد ان کا اجر ملتا رہے گا۔‘‘ (( عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ: رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہٖ وَإِنْ مَاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَاُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَاَمِنَ الْفَتَّانَ)) [1] ’’ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: اللہ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات سرحدوں کا پہرہ دینا، ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اور اگر وہ مرگیا، اس کا وہ عمل اس پر جاری رہے گا، جو وہ کرتا رہا۔ اور اس پر اس کا رزق و بدلہ جاری کردیا جائے گا اور وہ فتنے سے محفوظ ہوگا۔‘‘ (( عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ ا للّٰه صلی ا للّٰه علیہ وسلم قَالَ: کُلُّ الْمَیِّتِ یُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِہٖ اِلاَّ الْمُرَابِطُ فَاِنَّہٗ یَنْمُوْلَہٗ عَمَلُہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُؤْمَنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ)) [2] ’’ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہر میت کا خاتمہ اس کے عمل پر ہوجاتا ہے، مگر اللہ کی راہ میں پہرہ دینے والا اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنوں سے بچالیا جاتا ہے۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ان تمام اعمال صالحہ کا ثواب و فائدہ پہنچتا ہے، جن کو وہ اپنی زندگی میں سرانجام دے گیا اور وہ صدقہ جاریہ کے طور پر باقی رہے، جن میں علم سکھانا، نیک بچے کی دعا، قرآنِ مجید چھوڑ جانا، مسجد بنوانا، مسافر خانہ تعمیر کروانا، نہرو کنواں جاری کرجانا، کوئی صدقہ جو اس نے صحت و حیات میں کیا ہو، جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے فوت ہوجانا، مردہ سنت جاری کرنا، درخت وغیرہ لگاجانا وغیرھا۔ یہ تمام امور اس کے اپنے اعمالِ صالحہ ہیں ، یہ بھی یاد رہے کہ ولد صالح بھی آدمی کی نیک کمائی میں داخل ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسَبِہٖ وَإِنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ مِنْ کَسَبِہٖ))[3]
Flag Counter