Maktaba Wahhabi

263 - 822
ج: اس ذمہ دار شخصیت سے یہ کہہ سکتا ہے کہ بارہ سنتیں ہیں ، فرض واجب نہیں ۔ البتہ ان سنتوں کی ادائیگی میں سستی و کوتاہی نہ کرے، کیونکہ روزِ قیامت فرض نماز کے علاوہ نفل نماز سے فرض نماز کی کمی کوتاہی پوری کی جائے گی۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد [1] میں مذکور ہے۔ [ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے فرض نمازوں کے علاوہ روزانہ بارہ رکعتیں تطوع پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنادیتا ہے۔‘‘ ] [2] چار رکعت ظہر سے پہلے، دو رکعت اس کے بعد، دورکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد، اور دو رکعت نمازِ فجر سے پہلے۔[3] ۲۴ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ س: ایک آدمی نے ظہر کی نماز باجماعت مسجد میں ادا کی ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کچھ نمازی اور آگئے انہوں نے باجماعت نماز شروع کی، اب یہ پہلے والا نمازی اس جماعت کے ہوتے ہوئے ، ان کے قریب ہی اپنی نمازِ ظہر کی باقی سنتیں ادا کرسکتا ہے؟ (محمد یونس شاکر) ج: کرسکتا ہے کیونکہ یہ اگر جماعت میں شامل ہو تو یہ جماعت والی نماز اس کے لیے نفل ہے ، کیونکہ فرض وہ پہلے باجماعت ادا کرچکا ہے ۔ چنانچہ قیام اللیل کے متعلق آتا ہے:(( وَالنَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ یُصَلِّی الرَّجُلُ وَحْدَہٗ ، وَیُصَلِّیْ بِصَلاَتِہِ الرَّھْطُ)) أَوْ کَمَا قَالَ)) [’’ عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا، سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے اس پر عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں ، تو زیادہ اچھا ہوگا۔ چنانچہ آپ نے یہی ارادہ کر کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنایا۔‘‘][4] ۲۳ ؍ ۶ ؍ ۱۴۲۳ھ س: صبح کی اذان کے بعد سنتوں سے پہلے یا بعد میں نفل وغیرہ پڑھ سکتے ہیں ؟ (محمد سرور) ج: فجر کی اذان کے بعد فجر کی سنتیں ، مسجد کی دو رکعتیں ، طواف کی دو رکعتیں اور فوت شدہ وتر یا فرض نماز پڑھ
Flag Counter