اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد اضافی مکتوبات متفرقہ بلا ترتیب کو جلانا ہو، تاکہ ان کی موجودگی میں پھر اختلاف نہ ہوجائے)۔ لبیب رحمہ اللہ کے قول ’أمرھا‘(انہوں نے حکم دیا) پر غور کیجئے اور قاضی رحمہ اللہ نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ صحابہ نے ان اوراق(زائدہ) کو پہلے پانی سے دھویا تاکہ ان کے نشانات اچھی طرح ختم ہوجائیں اور اس کے بعد انہیں جلایا۔ قصہ مختصر یہ کہ تیارکردہ مصاحف کے علاوہ کو جلانے پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ سرید بن علقمہ سے مروی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں خلیفہ بنتا تو میں بھی وہی کام کرتا جو عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا۔ مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :جب عثمان رضی اللہ عنہ نے ان اوراق کو جلایا تو میں نے بہت سے لوگوں کومتعجب ہوتے دیکھا، لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی عثمان پرعیب نہیں لگایا۔ اس میں احراق کتب مقدسہ کی دلیل ہے اور ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ایسی کتابوں کے جلانے کی دلیل ہے جن میں ’’اللّٰہ ‘‘ لکھاہو، کیونکہ یہ نوری(حروف) کے اکرام کی خاطرہے تاکہ وہ پاؤں میں نہ روندے جائیں ۔ اور ’الاتقان‘میں ہے جب قرآن کے بوسیدہ حروف کوتلف کرنے کی ضرورت ہو تو انہیں گڑھے میں دفن کرنا جائز نہیں ،کیونکہ یہ پاؤں تلے روندے جائیں گے انہیں پھاڑنا بھی درست نہیں ،کیونکہ اس سے حروف اور کلمات متفرق ہوجائیں گے جس سے مکتوب مصاحف معیوب ہوں گے۔ حلیمی نے اسی طرح کہا ہے اورمزید کہا ہے کہ اگرانہوں نے جلایاتھا تو پہلے اس کو پانی سے دھو لیا تھا لہٰذاعثمان کے مصاحف جلانے میں کوئی حرج کی بات نہیں ، کیونکہ انہوں نے وہ اَوراق جلائے تھے جن میں منسوخ قراءات تھیں اور ان کے علاوہ بعض دیگر لوگوں کا مؤقف ہے کہ دھونے سے جلانابہتر ہے، کیونکہ دھونے کے بعد تو پانی زمین پر گرادیاجائے گا اور قاضی حسین رحمہ اللہ نے باالجزم مذکورہ بات پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے مصاحف کے جلانے کو حرام قرار دیا ہے، کیونکہ یہ خلاف احترام ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے مکروہ قرار دیا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ اہل علم میں مختلف فیہ ہے۔واللہ اعلم مصاحف عثمانیہ کی تعداد کے بارہ میں مصاحف عثمانیہ کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ مندرجہ ذیل چھ ہیں ۔ابن عامر رحمہ اللہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ ۱۔ مکی ۲۔ شامی ۳۔ بصری ۴۔ کوفی ۵۔ مدنی عام،(جوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں ایک جگہ پر عام لوگوں کے لیے رکھوایا تھا) ۶۔ مدنی خاص(جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھاتھا۔اسے مصحف امام بھی کہاجاتاہے) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے بقول پانچ تھے اور صاحب ’زاد القراء‘ نے لکھا ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک نقل تیار کروا لی جس کا نام ’امام‘ رکھا تو پھر اس سے مزیدنقول تیارکرواکر ایک ایک مکہ، کوفہ، بصرہ، شام کی طرف روانہ کیا اور ایک نسخہ مدینہ میں رکھا۔ جعبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’مدینہ میں ایک نسخہ عام لوگوں کے لیے تھا اور ایک آپ نے اپنے لیے رکھاتھا ا ور باقی اپنے گورنروں کی طرف بھیج دیئے۔ پھر فرماتے ہیں مصاحف کی تعداد آٹھ ہے۔ پانچ اتفاقی اورتین اختلافی ہیں یعنی متفق علیہ تو کوفی، بصری، شامی، مدنی عام اورمدنی خاص ہیں جبکہ |