Maktaba Wahhabi

375 - 933
قاری صہیب احمد میر محمدی٭ قراءات قرآنیہ کی اَساس....تلقّی وسماع ہم قراءات سبعہ وعشرہ متواترہ کی نشاۃ و تدوین کو دو مرحلوں میں تقسیم کرسکتےہیں : ۱۔ مرحلہ اولیٰ: اس بحث پر مشتمل ہے کہ ان قراءات کا اصل مصدر تلقی وسماع عن النبی ہے۔ ۲۔ مرحلہ ثانیہ: یہ تدوین قراءات کے بارے میں علی الاختصار بحث پر مشتمل ہے۔ ۱۔ مرحلہ اولیٰ:قراءاتِ سبعہ وعشرہ جو ثبوت میں تواترکا درجہ رکھتی ہیں ان میں اصل مصدر سماع عن النبی ہے۔قرآن کریم کی پہلی وحی ﴿إقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ٭خَلَقَ الِانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٭ اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ٭ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ٭ عَلَّمَ الِانْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ﴾[العلق:۱تا۵]کے الفاظ سے ہے۔ اور آخری وحی راجح قول کے مطابق ﴿وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ ہے۔[البقرۃ:۲۸۱] ابتدائے وحی کے متصل بعد سب سے بڑی چیز جس کا حکم ہوا وہ﴿ قُرْاٰنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاٰہُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا﴾[الاسراء: ۱۰۶]کے الفاظ میں موجودہے ۔چنانچہ اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو وحی کے مطابق ایک کامل واَکمل طریقہ پرکتاب وحکمت کی تعلیم دی۔جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے، خود بھی اس کے ضبط کرنے میں بڑے حریص تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: کان رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعالج من التنزیل شدۃ وکان مما یحرک شفتیہ فأنزل اللّٰہ ﴿لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ إن علینا جمعہ وقرآنہ﴾ فکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ذلک إذا أتاہ جبریل استمع فاذا انطلق جبریل قرأہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما قرأہ۔ [صحیح بخاری: کتاب بدأ الوحی] ’’نزول وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً وحی کو یاد کرنے کی کوشش کرتے(کہ کہیں بھول نہ جائے) تو اللہ تعالیٰ نے ﴿لَاتُحَرِّک بِہِ لِسَانَک لِتَعْجَلَ بِہ....﴾[القیامۃ:۱۶] آیت اتاری کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیں کیونکہ اس کو محفوظ کرنا اور تلاوت سکھلانا ہماری ذمہ داری ہے۔تواس کے بعد جب جبریل علیہ السلام آتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غور سے سنتے رہتے اور جبریل علیہ السلام کے جانے کے بعد ویساہی پڑھتے جیسا جبریل علیہ السلام پڑھا کرجاتے تھے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کے وقت فوراً وحی کواس لیے یاد کرناشروع کر دیتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرآن کریم کو بعینہٖ آگے منتقل کرنا بھی فرض تھا۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں بھول نہ جاؤں ۔ جس طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم اَخذ کرتے تھے اسے تلقِّی کہتے ہیں اور نقل قرآن میں یہ بنیادی شرط ہے۔وحی کا سلسلہ یوں ہی چلتارہا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ بن گیا کہ ہرسال رمضان المبارک میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا
Flag Counter