Maktaba Wahhabi

60 - 933
قاری صہیب احمدمیرمحمدی٭ قراءاتِ متواترہ [سبعۃ وعشرۃ] [فسانہ یا حقیقت؟] لفظ’قراء ات‘ کی لغوی بحث لفظ قراءات جمع ہے قراءۃ کی۔ لغت میں قرأ یقرأ سے قراءۃ مصدر سماعی ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے قرأ یقرأ قراءۃ وقرآنابمعنی تلا یعنی اس نے پڑھا، تلاوت کی۔ اسی سے اسم فاعل قاری آتا ہے اور قاری کی جمع قراء، قراۃ اور قاریون آتی ہے۔ لفظ قراءۃ سے قاراۃ بمعنی دراسۃ بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا دراست قراءۃ سے خارج نہیں ۔اسی طرح تقرا بمعنی تفقہ بھی مستعمل ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قراءۃ کو گہرے فہم سے بھی علاقہ ہے بلکہ دراست تلقی اور تفقہ معانی و مطالب کو قراءت میں شامل کرنے کا فائدہ دے رہی ہے۔اہل لغت نے قراءت کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:’’ھي عبارۃ عن لفظ الأحرف مجموعا من مختلف المخارج‘‘ ’’حروف کے مجموعہ کو قراءت کہتے ہیں خواہ وہ مجموعہ متفق المخارج ہویا مختلف المخارج۔‘‘ امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ کے صفحہ ۴۹۲ پر رقم طراز ہیں کہ ترتیل میں بعض کلمات اوربعض حروف کو بعض کے ساتھ ملا دینے اور جمع کردینے کو قراءت کہتے ہیں ۔چنانچہ اگر کوئی حرف واحد کا تلفظ کرے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ قراءت کررہا ہے۔جیساکہ درجہ ابتدائیہ کے بچوں کا معمول ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ قیامہ کی آیت ۱۷،۱۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ﴾ اس آیت کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ یوں کرتے ہیں : إذا جمعناہ وأثبتناہ فی صدرک فاعمل بہ(جب ہم نے اس کو جمع کردیا اور آپ کے سینے میں محفوظ کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کریں ) اس سے بھی قراءت کا لغوی معنی واضح ہوتاہے۔ علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ اپنی کتاب قاموس المحیط کی جلد۱ صفحہ ۲۵ میں یوں صراحت کرتے ہیں کہ قراءۃ الشیء کامعنی ضمہ وجمعہ ہے یعنی چیز کو جمع کرنے اور ضم کرنے کو قراءت کہتے ہیں ۔ چنانچہ یہاں سے بھی لغوی معنی واضح ہوگیا۔ علامہ زبیدی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’تاج العروس‘ کی جلد۱،ص۱۰۲ میں قراءت القرآن کی تعبیر لفطت بہ مجموعاسے کرتے ہیں جس سے لغوی معنی واضح ہوگیا۔ قراءات کی اصطلاحی تعریف
Flag Counter