Maktaba Wahhabi

61 - 933
اصطلاح علمی میں قراءات کی مختلف تعریفیں کی گئیں ہیں : ٭ علامہ زرکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب البرھان فی علوم القرآن کی جلد۱ ص۳۱۸ پررقم طراز ہیں کہ: ’’قراءات کہتے ہیں :اختلاف الفاظ الوحی فی الحروف وکیفیتہ من تخفیف وتشدید وغیرھا یعنی اس علم کو قراءت کانام دیا گیاہے کہ جس میں وحی قرآنی کے الفاظ کااختلاف اور کیفیات کو جانا جاتا ہے۔ مثلاً تخفیف کے ساتھ کلمہ کا وارد ہونا یا تشدید کے ساتھ مثلاً ﴿یَکْذِبُون و یُکَذِّبُون﴾‘‘ ٭ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ۳ پریوں لکھتے ہیں : ’’القراءات علم بکیفیۃ أداء کلمات القرآن واختلافہا بعز والناقلۃ یعنی قراءات اس علم کا نام ہے کہ جس میں کلماتِ قرآنیہ کے اَدا کی کیفیت اور اس کااختلاف(جو کہ تغایر اور تنوع کے قبیل سے ہوتا ہے نہ کہ تضاد اور تناقض سے)معلوم کیا جاتا ہے جوکہ متصل بالناقل ہوتاہے۔‘‘ ٭ علامہ دمیاطی رحمہ اللہ اپنی کتاب اتحاف فضلاء البشر کے صفحہ۵ پریوں لکھتے ہیں : ’’علم یعلم منہ اتفاق الناقلین لکتاب اللّٰہ تعالیٰ واختلافہم فی الحذف والتحریک والتسکین والفصل والوصل وغیرہ ذلک من ھیئۃ النطق والابدال وغیرہ من حیث السماع‘‘ ’’علم قراءات وہ علم ہے جس میں کتاب اللہ کے ناقلین کا اتفاق و اختلاف جانا جاتاہے جو کہ حذف، تحریک، اسکان، فصل، وصل کے قبیل سے ہو اور نطق کی کیفیت و ابدال وغیرہ بھی جو کہ سماع پر موقوف ہیں ۔‘‘ ٭ علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ اپنی کتاب البدور الزاھرۃ کے صفحہ ۷ پر لکھتے ہیں : ’’ھو علم یعرف بہ کیفیۃ النطق بالکلمات القرآنیۃ وطریق أدائہا اتفاقا واختلافا مع عزوکل وجہ لناقلہ‘‘ ’’قراءات کا علم وہ ہے جس میں کلمات قرآنیہ کے نطق کی کیفیت معلوم کی جاتی ہے اورکلمات قرآنیہ کی اتفاقی و اختلافی اداکاطریق کار معلوم کیاجاتاہے لیکن ہروجہ کی نسبت اس کے قائل(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف ہوتی ہے۔‘‘ ٭ علامہ زکریا انصاری رحمہ اللہ نے قراءت کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے: ’’تطبیق المنقول او المسموع علی القرآن الکریم تلاوۃ و آداء‘‘ ’’منقول یا مسموع(سنے ہوئے) انداز سے آیات قرآنی کی اداء و تلاوت کرنا۔‘‘ ٭ ڈاکٹر عبدالہادی الفضلی رحمہ اللہ اپنی کتاب القراءات القرآنیۃ کے صفحہ ۵۶ پر یوں فرماتے ہیں : ’’إن القراءۃ ھی النطق بالفاظ القرآن کما نطقہا النبی!....الخ‘‘ ’’یعنی علم قراءات وہ علم ہے جس سے قرآنی الفاظ کی وہ ادائیگی معلوم ہوتی ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ادائیگی) کی۔‘‘ تعریفوں سے حاصل ہونے والے فوائد ان تمام تعریفات کو جمع کیاجائے تو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں : ۱۔ علم قراءات کا تعلق وحی قرآنی سے ہے جیسا کہ اختلاف الفاظ الوحی القرآنی سے معلوم ہوتا ہے گویا علم قراء ات، وحی جلی کا علم ہے۔ ۲۔علم قراءات نقل اور سماع پر موقوف ہے نہ کہ رائے اور اجتہاد پر جو کہ تعز والناقلۃ، من حیث السماع، مع عزوکل وجہ لناقلہ سے ثابت ہورہا ہے۔ گویا قراءات کی صحت کے لیے نقل و سماع ضروری ہے۔
Flag Counter