Maktaba Wahhabi

62 - 933
جیساکہ امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن جلد۱ ،صفحہ۷۵ پر اور سعید بن منصور رحمہ اللہ اپنی سنن میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’القراءۃ سنۃ متبعۃ یأخذھا الاخر عن الأوّل‘‘ ’’قراءت سنت متبعہ(سنت متواترہ) ہے جسے بعد میں آنے والے متقدمین سے حاصل کریں گے۔‘‘ اور ابن مجاہد رحمہ اللہ کی کتاب’کتاب السبعۃ‘کے صفحہ ۵۰۔۵۱ پرابی بکر بن مجاہد سے ہے: ’’القراءۃ سنۃ متبعۃ فاقروا کما تجدونہ‘‘ ’’قراءت سنت متبعہ(سنت متواترہ) ہے اس کو جس طرح تم پاؤ ویسے ہی تلاوت کرو۔‘‘ یہاں لفظ تجدونہ استعمال ہوا ہے اور وجدان کی تکمیل بغیر نقل اور سماع کے ممکن نہیں ۔ پھر فرماتے ہیں کہ میں نے بعض شیوخ کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بھی یوں روایت کرتے سنا ہے۔ چنانچہ مذکورہ عبارت سے یہ معلوم ہواکہ قراءات کادارومدار نقل و سماع پر ہے، رائے اور اجتہاد سے اس کاکوئی تعلق نہیں ۔چنانچہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ اپنی کتاب حرز الامانی ووجہ التہانی کے صفحہ۳۱ پر شعر نمبر ۳۵۴، باب الرآء ات میں فرماتے ہیں ۔ وما لقیاس فی القراءۃ مدخل فدونک ما فیہ الرضا متکفلا ’’قراءات کے اندر قیاس و اجتہاد کاکوئی دخل نہیں لہٰذا تو ائمہ سلف کے معتبر و منقول کو اس طرح پکڑ لے کہ تو بھی اس نقل کاذمہ دار(آگے پہنچانے والا)بننے والاہے۔‘‘ اسی طرح علامہ جزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ۴ میں فرماتے ہیں : ’’ولیحذر القاری الاقراء بما یحسن فی رأیہ دون النقل أو وجہ إعراب أولغۃ دون روایۃ‘‘ ’’قاری کو اس قراءات کے یا وجہ اعراب کے یا لغت کے پڑھانے سے رک جاناچاہئے جو اس کی رائے میں اچھی ہو لیکن روایت کے بغیر ہو۔‘‘ ۳۔ علم قراءات میں تطبیق بھی ضروری ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ علم قراءت کی روایت میں راوی میں اَدا کرنے کی اہلیت ہونا بھی شامل ہے، کہ راوی اپنی بیان کردہ روایت کے مطابق تلاوت کرکے سنائے، چونکہ اس کاتعلق قراءت سے ہے اور جو خود اداکرنانہیں جانتا، وہ روایت کیسے کرسکتا ہے؟ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی روایات کا مدار صرف تحریر پرنہیں ، ادا پر بھی ہے۔ کیونکہ زیادہ احتیاط ہر دو کا تقاضا کرتی ہے۔غرض قراءات کاتعلق وحی قرآنی(جلی) سے ہے اور قراءات وہ صحیح ہوں گی جو نقل و سماع کے اکمل طریقے سے تطبیق و ادا(تلاوت) کے ساتھ ہم تک پہنچی ہوں ۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ ۴ پر فرماتے ہیں کہ: ’’لابد فی القراءۃ مشافہۃ والمقری العالم بہا رواھا مشافہۃ‘‘ ’’قراءت میں مشافہہ(منہ درمنہ بات چیت)ہونالازمی ہے اور مقری عالم وہی ہوگا جو اس کو بالمشافہہ روایت کرے۔‘‘
Flag Counter