لسانیات میں اختلاف لہجات ایک معروف چیز ہے۔ اسی طرح عرب کے مختلف قبائل اور مختلف علاقوں کی زبان میں بھی خاصا اختلاف پایاجاتا ہے، لیکن اس اختلاف کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ اس سے زبان کے اندر کوئی بنیادی تغیر رونما ہوجاتا ہو۔ مقامی تلفظ، لہجات، محاورات اور زبان کے بعض دوسرے اسالیب کے اختلاف کے باوجود زبان کا بنیادی سانچہ ایک ہی رہتا ہے۔جیساکہ زبان کے مقامی رنگ اور اختلافات کامشاہدہ ہم آج کل بھی کرسکتے ہیں ۔ مثلاً آپ پنجاب کے مختلف حصوں میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر ضلع اور بعض اوقات ایک ہی ضلع کے مختلف حصوں کی زبان مختلف ہے۔ یہی حال اُردو زبان کا ہے کہ پشاور سے لے کر مدراس تک آپ چلے جائیں ۔اُردو بولنے والوں میں ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف لہجے، مختلف تلفظ اورمختلف محاورے ملتے ہیں ، دہلی والوں اور لکھنؤ والوں کی زبان، اسی طرح حیدرآباد(دکن) اور پنجاب والوں کی اُردو ہے، لیکن ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف اَسالیب اختیارکئے جاتے ہیں ۔ یہی چیز نزول قرآن کے وقت عرب میں بھی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے۔ عرب میں آپ یمن سے لے کر شام تک چلے جائیں ، آپ کو لہجے اور تلفظ بدلتے ہوئے ملیں گے۔ ایک ہی مضمون کو عرب کے ایک حصے میں کسی اور طرح اَداکرتے ہیں اور دوسرے حصے میں کسی اور طرح لیکن اس اختلاف کے باوجود معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ مذکورہ حدیث میں سات حروف سے مراد یہی لہجات اور اَسالیب وغیرہ کا اختلاف ہے جن کو آج کل قراءات سے موسوم کیا جاتاہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید اگرچہ اولاً قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا، لیکن اہل عرب کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اسے اپنے مقامی لہجات اور تلفظ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ، اس شرط کے ساتھ کہ وہ تبدیلی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت ہو۔ کیونکہ ایک عرب کا باشندہ جب قرآن مجید پڑھے گا تو زبان کے مقامی اختلافات کے باوجود اس میں کوئی ایسا ردوبدل نہیں ہوگا، جس سے معنی اورمفہوم تبدیل ہوجائیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ حرام حلال ہوجائے یا حلال حرام ہوجائے یاتوحید کامضمون ہو اور وہ مشرکانہ مفہوم میں بدل جائے۔ بعض کرم فرماؤں نے اس حدیث کو ناقابل اعتبار بتایا ہے، سنئے، ان کے الفاظ ہیں : ’’مجرد اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اس مذکورہ حدیث کو اٹھا کر پھینک دیا جاسکتا ہے کہ یہ ابن شہاب زھری رحمہ اللہ کی روایت ہے کیونکہ ابن شہاب رحمہ اللہ کے متعلق اہل فن کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ جس روایت میں یہ ہوں وہ روایت بے حیثیت ہوجائے گی، کیونکہ جتنے بھی فتنے ہمارے ہاں حدیث کے ذریعے آئے ہیں ، ان کے سب کے بانی یہی ہیں اس لیے کہ اصل میں یہ شیعوں کی طرف میلان رکھنے والے تھے۔ یہ ایک دنیادار آدمی تھے۔ دنیوی وجاہت کی طلب میں انہوں نے بنو اُمیہ سے بھی تعلق بنائے اور حدیث کے اندر ان کااِدراج بھی مشہور ہے اور حتیٰ کہ ان کے بارے مرسلاتہ بمنزلہ الریح کہا گیا ہے۔‘‘ امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ کی ثقاہت حقیقت اس اعتراض کی یوں ہے کہ: ’’اس روایت کااگر علمی اور فنی تجزیہ کیاجائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بخاری و مسلم جیسی معتمد کتابوں میں موجود ہے۔مجرد اسی بات پرتمام اعتراضات کورد کیا جاسکتا ہے کہ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے اپنی |